افغانستان سے دراندازی کی بڑی کوشش ناکام بنا دی: پاکستانی سکیورٹی ذرائع

پاکستانی سکیورٹی ذرائع کے مطابق گذشتہ رات 25 سے 20 عسکریت پسندوں نے افغان طالبان کی سرحدی پوسٹوں کے ذریعے دراندازی کی کوشش کی، جسے ناکام بنا دیا گیا۔

ایک افغان سکیورٹی اہلکار تین دسمبر، 2023 کو صوبہ قندھار کے ضلع سپن بولدک میں افغانستان-پاکستان سرحد پر پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی)

افغان وزارت دفاع نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ ’ملک کے جنوب‘ (پاکستان) سے کی گئی کارروائی کے ردعمل میں ’فرضی لائن‘ (پاکستان - افغانستان سرحد) کی دوسری جانب ’شرپسند عناصر کے بہت سے ٹھکانوں اور مراکز کو نشانہ بنایا گیا، جہاں سے افغانستان میں ہونے والے حملوں کو منظم کیا جا رہا تھا۔‘

انگریزی، پشتو، دری اور عربی زبان میں ایکس پر پوسٹ کیے گئے اس بیان میں کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا۔

تاہم افغانستان کے جنوب اور مشرق میں پاکستان واقع ہے جبکہ افغانستان دونوں ملکوں کے درمیان واقع سرحد ڈیورنڈ لائن کو ’فرضی لائن‘ قرار دیتا ہے۔

تاہم اسلام آباد اسے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد قرار دیتا ہے۔

افغان نیوز ویب سائٹ ’طلوع نیوز‘ نے وزارت دفاع کے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ خوست اور پکتیا صوبوں میں افغان اور پاکستانی سرحدی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں 19 پاکستانی فوجی جان سے چلے گئے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ پاکستانی جانب سے داغے گئے مارٹر گولوں کی وجہ سے پکتیا کے ضلع ڈنڈ پتن میں تین شہریوں کی اموات بھی ہوئیں۔

افغان حکام کے اس بیان کے حوالے سے تاحال پاکستانی حکومت یا فوج کا کوئی باظابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے تبصرے کے لیے رابطہ کر رکھا ہے، تاہم اب تک ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔


’افغانستان سے دراندازی ناکام بنا دی‘

ادھر پاکستان کے عسکری ذرائع نے کہا ہے کہ 28 اور 27 دسمبر کی درمیانی رات کو 25 سے 20 عسکریت پسندوں نے افغان طالبان کی سرحدی پوسٹوں کا استعمال کرتے ہوئے ضلع کُرم اور شمالی وزیرستان میں دو مقامات سے پاکستان میں در اندازی کی کوشش کی، جسے سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی سے ناکام بنا دیا۔

پاکستانی عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ 28 دسمبر کی صبح حملہ آوروں نے دوبارہ افغان طالبان کی پوسٹوں کو استعمال کرتے ہوئے دراندازی کی کوشش کی، تاہم ناکامی پر شدت پسندوں اور افغان طالبان نے مل کر پاکستانی پوسٹوں پر بِلا اشتعال بھاری ہتھیاروں سے فائر کھول دیا۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان نے اس بلااشتعال فائرنگ کا بھرپور جواب دیا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق مؤثر جوابی فائر سے 15 سے زائد حملہ آوروں کے مارے جانے اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

واقعے میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ فریقین کے دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

افغان وزارت دفاع کا یہ بیان 24 اور 25 دسمبر کی رات پاکستان کی جانب سے افغانستان میں فضائی حملے کی خبروں کے سامنے آنے کے بعد آیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو خبر رساں ادارے ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ منگل کی رات پاکستان نے افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیکا کے ضلعے برمل کے چار علاقوں پر بمباری کی۔

انہوں نے کہا کہ ’مرنے والوں کی کل تعداد 46 ہے، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔‘

تاہم ایک سینیئر پاکستانی سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ یہ حملے ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ پر کیے گئے، جن میں جیٹ طیاروں اور ڈرونز کا استعمال کیا گیا۔

 انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ حملوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کم از کم 20 جنگجو مارے گئے۔ ساتھ ہی انہوں نے افغان حکام کے شہریوں کی اموات کے دعوؤں کو بھی مسترد کر دیا تھا۔


’ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیاں ٹھوس معلومات کی بنیاد پر‘

جمعرات (26 دسمبر کو) کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے منگل کے فضائی حملوں کی تصدیق کرنے سے انکار کیا تھا۔

تاہم ان کا کہنا کہ پاکستان اپنے عوام کی سلامتی کے لیے پرعزم ہے اور اس کے سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سرحدی علاقوں میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کے خلاف ’ٹھوس خفیہ معلومات‘ کی بنیاد پر کارروائیاں کرتے ہیں۔

اسلام آباد کابل کی طالبان حکومت پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ شدت پسند جنگجوؤں کو پناہ دیتی ہے جو بلا خوف و خطر پاکستانی علاقے پر حملے کرتے ہیں، تاہم کابل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔


’افغانستان سے ٹی ٹی پی کی کارروائیاں ہماری ریڈ لائن‘

گذشتہ روز پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے افغان حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیاں روکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ٹی ٹی پی کا ناطقہ مکمل طور پر بند کرنا ہو گا اور انہیں کسی صورت پاکستان کے بے گناہ عوام کو مارنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہمارے لیے ریڈ لائن ہے۔‘

گذشتہ روز ہی پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ افغانستان پاکستان کا برادر پڑوسی ملک ہے، اور اسے چاہیے کہ وہ ’خوارجیوں اور دہشت گردوں‘ کو پڑوسیوں پر فوقیت نہ دے۔

پاکستان کی سرحدوں پر موجود خطرات کے حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ ’پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں کیں، پاکستان کی تمام تر کوشش کے باوجود افغان سرزمین سے دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔

’دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان تک جاتے ہیں، دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا