او سی ڈی اوبسیسو کمپلسِو ڈس آرڈر کا مخفف ہے۔ یہ ایک ذہنی صحت کی حالت ہے، جس میں مریض متعدد وسوسوں کی وجہ سے پریشان اور بے چین رہتا ہے۔ ان وسوسوں سے مجبور ہو کر وہ انسان کچھ عوامل بار بار دہراتا ہے۔ یہ عوامل وقتی طور پر اس کی پریشانی اور بے چینی کو کم کرتے ہیں لیکن وہ پھر سے ان کا شکار ہو کر وہی عوامل دہرانا شروع کر دیتا ہے۔ ہر بار ان عوامل پر صَرف ہونے والا وقت اور انہیں کرنے کی شدت بڑھ جاتی ہے۔
جیسے بعض لوگ بار بار اپنے ہاتھ دھوتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ اس قدر دھوتے ہیں کہ ان کی جلد متاثر ہونے لگتی ہے۔ کچھ افراد کو ترتیب اور تنظیم کے حوالے سے وسوسے ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی چیز ان کی مرضی کے مطابق نہ ہو تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں، جھگڑنے لگتے ہیں یا غصہ کرتے ہیں۔
او سی ڈی کے اور بھی پیچیدہ پہلو ہیں۔ اس مرض میں مبتلا افراد مختلف قسم کے مذہبی، جنسی یا اخلاقی وسوسوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان وسوسوں کی شدت اس قدر ہوسکتی ہے کہ وہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مخصوص رویے اختیار کرنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک شخص بار بار یہ سوچ سکتا ہے کہ اس نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور اس خوف کو کم کرنے کے لیے وہ بار بار دعائیں پڑھے گا یا مذہبی رسومات ادا کرے گا۔ اسے پتہ ہوگا کہ وہ اس حوالے سے بے چین ہو رہا ہے اور اسے رکنا چاہیے لیکن وہ رک نہیں پا رہا ہوگا۔ اس کی یہ بے بسی اس کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔
اکثر لوگ او سی ڈی کو ایک مثبت یا قابلِ فخر خاصیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس بیماری کو صفائی پسندی یا کاملیت کی خواہش سے جوڑتے ہیں۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے اردگرد گندگی بالکل برداشت نہیں اور وہ اپنی تمام چیزوں کو ترتیب سے رکھتے ہیں۔ اگر ان کی ترتیب میں ذرا سا بھی خلل آئے تو وہ بے چینی محسوس کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک دفعہ میرے ہاسٹل کے عوامی استعمال کے ریفریجریٹر میں چیزیں بے ترتیبی سے پڑی ہوئی تھیں۔ ایک خاتون نے ایک دن اس فریج میں رکھی چیزوں کو ترتیب سے رکھنا شروع کیا اور ساتھ ہی بڑبڑانے لگیں کہ شاید اس جگہ صرف انہیں ہی او سی ڈی ہے۔ اس کے بعد کبھی کسی نے انہیں دوبارہ اس فریج کی صفائی کرتے یا اس میں چیزوں کی ترتیب درست کرتے نہیں دیکھا۔
یہ خالصتاً پاپ سائیکولوجی کا کیس ہے، جس میں او سی ڈی جیسی پیچیدہ بیماری کو غلط طور پر صفائی پسندی یا ایک عارضی عادت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ او سی ڈی کے شکار افراد کے لیے اس طرح کے رویے عارضی یا اختیاری نہیں ہوتے۔ ان کے لیے یہ رویے مسلسل اور غیر اختیاری ہوتے ہیں، جو ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
او سی ڈی ممکنہ طور پر جینیاتی، ماحولیاتی اور نیورو بایولوجیکل عوامل کے مجموعے سے متاثر ہوتا ہے۔ اس میں مریض کے رویے کا ایک پیٹرن نظر آتا ہے۔ وہ اپنا یہ پیٹرن بغیر علاج کے نہیں توڑ سکتا۔ ایسا مریض بار بار فریج دیکھے گا کہ کہیں اس میں رکھی چیزیں پھر سے بے ترتیب تو نہیں ہو گئیں۔ وہ چیزوں کو ٹھیک سے رکھنے کی کوشش کرے گا اور اس بارے میں سوچ کر پریشان ہوتا رہے گا۔
او سی ڈی کا بے چینی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کسی چیز کے بارے میں پریشانی محسوس کرنے پر جسمانی اور جذباتی بے سکونی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ یہ بے چینی اتنی شدت اختیار کر لیتی ہے کہ انہیں اسے کم کرنے کے لیے کوئی عمل کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
اکثر لوگ او سی ڈی کو ایک مثبت یا قابلِ فخر خاصیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس بیماری کو صفائی پسندی یا کاملیت کی خواہش سے جوڑتے ہیں۔
او سی ڈی مریض کے دوسروں سے تعلقات بھی خراب کرتی ہے۔ مثلاً صفائی کے وسوسے رکھنے والے افراد اپنے شریک حیات یا قریبی لوگوں سے غیر معمولی صفائی کی توقع رکھتے ہیں، جیسے ہر چیز کو بار بار دھونا یا کسی مخصوص جگہ کو ہر وقت صاف رکھنا۔ ایسے مریض کا اپنے شریکِ حیات سے تعلق بھی اس مرض کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کا شریکِ حیات صاف ستھرا نہیں ہے۔ وہ اسے اپنی پسند کے مطابق صفائی رکھنے کا کہتے ہیں، جو ان کے شریکِ حیات کو طویل مدت میں تنگ کر سکتا ہے۔
کچھ افراد کو ’کنٹرول‘ کرنے کا وسوسہ ہو سکتا ہے، جیسے اس بات کی بار بار تصدیق کرنا کہ آیا ان کا ساتھی انہیں محبت کرتا ہے یا ان کے ساتھ وفادار ہے۔ یہ لوگ بار بار سوالات کرتے ہیں جیسے: ’کیا تم مجھ سے خوش ہو؟‘ یا ان کا موبائل چیک کرنے جیسا رویہ اپناتے ہیں، جس سے دوسرا شخص بے چینی محسوس کر سکتا ہے۔
کچھ لوگ نقصان یا نقصان پہنچانے کے وسوسوں کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں یہ خوف ہو سکتا ہے کہ ان کے اعمال سے کسی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ وہ دوسروں پر غیر ضروری پابندیاں لگا سکتے ہیں، جیسے بچوں کو باہر جانے سے روکنا یا شریکِ حیات کو غیر محفوظ محسوس ہونے والے کام کرنے سے منع کرنا۔
او سی ڈی کا مکمل علاج ممکن نہیں ہے لیکن باقاعدہ تھیراپی اور ادویات کے ذریعے اس کے ساتھ زندگی گزارنے کے طریقے سیکھے جا سکتے ہیں۔ دیگر ذہنی صحت کی حالتوں کی طرح او سی ڈی کے علاج کا دارومدار بھی مریض کی آمادگی اور بہتر زندگی گزارنے کی خواہش پر ہوتا ہے۔ جب مریض کو اپنی حالت کا ادراک ہوتا ہے تو وہ اسے بہتر کرنا چاہتا ہے، تبھی وہ مدد مانگتا ہے۔
اب بتائیں کیا آپ کو او سی ڈی ہے؟
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔