پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٸر رہنما محمد صدیق الفاروق طویل علالت کے باعث 15 دسمبر 2024 بروز اتوار کو انتقال کر گئے۔
وہ کچھ عرصے سے دل اور گردوں کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ بیماری نے انہیں بہت لاغر اور کمزور کر دیا تھا۔ مرحوم نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ ان کی اٹھان اسلامی جمعیت طلبہ سے ہوٸی۔ اصغرمال کالج میں طلبہ یونین کے صدر رہے اور 70 کی دہاٸی میں احتجاجی تحریکوں میں بطور طالب علم رہنما متحرک کردار ادا کیا۔ طلبہ سیاست کے بعد ایک طویل عرصہ تک عملی صحافت کرتے رہے اور پی پی آٸی نیوزایجنسی سے وابستہ رہے، جہاں 1980 کی دھاٸی میں ہمارے بڑے بھاٸی محمد اسماعیل خان ’شہید صحافت‘ اور وہ اکٹھے کام کرتے رہے۔
میں جب اپنے زمانہ طالبعلمی میں اٹک سے پہلی مرتبہ، غالباً 1989 میں، بڑے بھاٸی کے ہمراہ پی پی آٸی کے آفس گیا، تو صدیق الفاروق سے ملاقات ہوٸی تھی۔ انہوں نے نا صرف آٶ بھگت کے لیے آٸس کریم منگواٸی بلکہ اسلام آباد میں گھومنے کے لیے اپنی موٹرسائیکل کی چابی کی پیشکش بھی کی تھی۔ ان دنوں وہ شام میں شاٸع ہونے والے انگریزی اخبار پاکستان آبزرور میں بھی کام کرتے تھے اور بھاٸی جان اسماعیل نے جب میرے بارے میں بتایا کہ کالج میں پڑھ رہا ہے اور اِسے بھی صحافت کا شوق ہے تو انہوں نے کہا کہ ان کو اٹک سے پاکستان آبزرور کا نماٸندہ بنوا دیتے ہیں اور پھر اسی دن چیف ایڈیٹر زاہد ملک مرحوم کو کہہ کر مجھے پاکستان آبزرور اور ھفت روزہ حرمت کا ڈسٹرکٹ رپورٹر بنوا دیا، جن میں ایک عرصہ تک میری خبریں اور رپورٹس شاٸع ہوتی رہیں۔
اس سے کچھ سال پہلے بھاٸی جان شہید کو پی پی آٸی اسلام آباد آفس سے پشاور میں پی پی آٸی کا بیوروچیف بنا کر بھیجا گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایم آرڈی کی تحریک چل رہی تھی، جس کی وہ بھرپور کوریج کرتے تھے۔ جونیجو حکومت کی برطرفی اور جنرل ضیاالحق کے طیارہ حادثے کے بعد الیکشن ہوئے، جن میں پیپلز پارٹی جیت گئی اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گٸیں، تو غالباً پہلی ہی پریس کانفرنس میں صدیق الفاروق صاحب نے کوٸی ایسا سوال کر دیا، جس کی وجہ سے پی پی آٸی کے لیے کچھ مساٸل پیدا ہوۓ تو پی پی آٸی انتظامیہ نے بھاٸی جان شہید کو واپس اسلام آباد بلا لیا اور وزیراعظم کی بیٹ انہیں دے دی گئی، جب کہ صدیق الفاروق صاحب کا تبادلہ کاغذوں میں لاہور کر دیا گیا اور نوازشریف اور آٸی جے آٸی کی بیٹ، جو وہ پہلے بھی کور کرتے تھے انہیں دی گٸی۔ اُن دنوں پنجاب کے وزیراعلیٰ نواز شریف اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے مابین سیاسی طور پر سخت کشمکش تھی لیکن اسماعیل صاحب اور صدیق صاحب کے درمیان متحارب سیاسی جماعتوں کی کوریج کرنے اور پارٹی پالیسی کے حوالے سے نرم گوشہ ہونے کے باوجود بطور کولیگ باہمی عزت و احترام پر مشتمل اچھے اور دوستانہ تعلقات تھے۔
بھاٸی جان شہید اسماعیل صاحب نے جلد ہی روزنامہ فرنٹیئر پوسٹ جواٸن کر لیا لیکن ان کے پی پی آٸی کے دوستوں کے ساتھ ہمیشہ اچھے روابط رہے۔
1992 میں ہمارے والد صاحب کی وفات پر صدیق الفاروق صاحب پی پی آٸی کے دیگر کولیگز کے ہمراہ تعزیت اور فاتحہ خوانی کے لیے ہمارے گاٶں تشریف لائے اور پھر 2006 میں بڑے بھاٸی اسماعیل صاحب جب پی پی آٸی میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے، کو رات کی تاریکی میں ان کے دفتر کے قریب نامعلوم قاتلوں نے شہید کر دیا تو وہ تعزیت و فاتحہ خوانی کے لیے آئے اور چہلم کے موقع پر گاٶں میں منعقدہ تعزیتی اجتماع سے خطاب بھی کیا۔
مرحوم صدیق الفاروق کا تعلق سیاسی کارکنوں کی دم توڑتی اس نسل سے تھا، جو نہ صرف اپنے نظریات اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کا ہنر بلکہ اپنے نظریات پر کاربند رہنے کے لیے جبر و استبداد اور مشکلات کا مردانہ وار سامنا کرنا بھی جانتے تھے۔ متوسط طبقے سے تعلق کے باوجود صرف اپنی روزی روٹی کی فکر کرنے کی بجائے معاشرے اور عام عوام کی بہتری کے خواب آنکھوں میں سجائے طلبہ سیاست میں یونین لیڈر کے طور پر احتجاجی، مذہبی، سیاسی و جمہوری تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حصولِ تعلیم کے بعد صحافت کو بطورِ پیشہ اختیار کیا اور پھر عملی سیاست میں اپنی جگہ بنانے میں بھی کامیاب رہے۔ لیکن اہم اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر رہنے کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو مالی بدعنوانی اور مال و دولت کی ہوس سے دور رکھا اور اپنے اجلے اور صاف ستھرے دامن پر کوٸی داغ نہیں لگنے دیا۔
1993 میں جب میاں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم تھے تو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے نون لیگ کی حکومت کو 58 (2) بی کی مشہور زمانہ آٸینی شق کا استعمال کرتے ہوئے اسمبلیوں سمیت برطرف کر دیا۔ صدیق الفاروق صاحب پی پی آٸی سے اپنی وابستگی کو چھوڑ کر میاں نواز شریف کے سیاسی ہم سفر بن گئے اور حکومت کی سپریم کورٹ سے بحالی پر پہلے کچھ عرصے کے لیے اور پھر 1997 میں نون لیگ کی حکومت آنے پر دوسری دفعہ وزیراعظم کے پریس سیکرٹری تعینات ہوئے اور مرتے دم تک نوازشریف اور مسلم لیگ نون سے وابستہ رہے۔ مسلم لیگ کے اندر سے ہی کچھ لوگوں کو ان کا وزیراعظم کا پریس سیکرٹری بننا پسند نہیں تھا اس لیے مشرف مارشل لا سے پہلے انہیں اس عہدے سے ہٹا کر چیئرمین ہاٶس بلڈنگ فنانس کارپوریشن بنا دیا گیا تھا۔
مرحوم صدیق الفاروق جب ہاٶس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے چیئرمین تھے، تو ان دنوں ہم بھاٸیوں میں دوسرے نمبر پر بڑے بھاٸی محمد خطیب خان مرحوم کی وساطت سے ان کے آفس کے ایک ساتھی، جن کا تعلق اٹک کے ہی ایک گاٶں سے ہے، اختتام ھفتہ جب بھاٸی جان شہید محمد اسماعیل خان گاٶں آئے تو اپنی ایک عزیزہ، جو چند ماہ پہلے ہی بیوہ ہوٸی تھیں، کی درخواست لے کر آئے کہ ان کے خاوند نے دو گھر بنائے تھے اور اب ایک گھر کی بقیہ قسطیں تو ختم کر دی جاٸیں گی لیکن دوسرے کی اقساط ختم نہیں ہو رہی ہیں اور محکمے والے تنگ کر رہے ہیں کہ بقیہ قسطیں دینا پڑیں گی۔ اسماعیل صاحب جب اس بیوہ خاتون کی قرضہ معافی کی درخواست لے کر گئے تو صدیق الفاروق صاحب مرحوم نے نہ صرف بقیہ قرضے کی اقساط معاف کر دیں بلکہ قانون بنوایا کہ اگر کسی شخص کے دو قرضے ہوں گے تو اس کے فوت ہو جانے کی صورت میں دونوں قرضے معاف ہوں گےاور بیوہ سے وصولی نہیں کی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشرف مارشل لا میں نہ صرف انہوں نے دلیری سے اپنی پارٹی کا پرچم سربلند رکھا بلکہ قید وبند کی سختیاں اور جان توڑ صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ انہیں جب تقریباً سال، ڈیڑھ سال غاٸب رکھنے کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر عدالت میں پیش کیا گیا تو احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم نے کہا کہ وہ انہیں ڈمپ (Dump) کر کے بھول گئے تھے۔ انہوں نے بڑی بہادری سے تین سال جیل کاٹی اور رہاٸی کے بعد ایسے وقت میں جب نواز شریف کو غدار اور ملک دشمن ثابت کیا جا رہا تھا سانحہ کارگل کے پسِ منظر اور نواز شریف و مشرف اختلافات کے حوالے سے ’سرخرو کون‘ کتاب لکھ کر باقاعدہ نوازشریف کا دفاع کیا۔
رہائی پر بہت ہی مشکل وقت میں نون لیگ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہے اور بعد میں 2013 میں نون لیگ کی حکومت آنے پر متروکہ وقف املاک ٹرسٹ کے چیئرمین بھی بنے، جس وجہ سے مختلف مقدمات کا بھی سامنا کرتے رہے لیکن پارٹی نے ان کی خواہش اور ٹکٹ کے لیے باضابطہ درخواستیں جمع کروانے کے باوجود کبھی قومی انتخابات میں انہیں ٹکٹ نہیں دیا اور ان سے سینیٹ کے ٹکٹ کا وعدہ کیا جاتا رہا، جو کبھی وفا نا ہو سکا اور موجودہ دور میں تو مشرف دور کے احتساب حکام کی طرح ان کی پارٹی اور اس کی حکومت انہیں تقریباً بھول ہی چکی تھے۔
مرحوم کی وفات سے کچھ روز پہلے کچھ سینیئر صحافیوں کی طرف سے ان کی شدید بیماری کی اطلاعات پر سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر اور استادوں کے استاد قلم کار عرفان صدیقی وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے پھولوں کا گلدستہ لے کر مرحوم کی عیادت کے لیے گئے اور پھر وہ اور وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ مرحوم کی نماز جنازہ میں بھی شامل ہوئے، جب کہ پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما فرحت اللہ بابر سمیت بڑی تعداد میں سیاسی و سماجی شخصیات اور صحافیوں نے بھی نمازِجنازہ میں شرکت کی۔ اسی طرح نون لیگ کے قاٸد نوازشریف، وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز، سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی، وفاقی وزیر احسن اقبال اور دیگر نے تعزیتی بیانات جاری کیے۔
مرحوم صدیق الفاروق کو اپنی والدہ کی وفات کے کچھ سال بعد اپنے جواں سال صاحبزادے کی اچانک موت کا گہرا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا تھا، جس نے انہیں بہت دکھی کیا۔ میرے بھاٸی اٹک کے سینیئر صحافی حافظ عبدالحمید خان، بڑے بھاٸی اسماعیل صاحب کے صاحبزادے ذیشان اسماعیل خان کے ہمراہ فاتحہ خوانی کے لیے ان کے پاس گئے تو نہ صرف وہ بہت اپناٸیت اور شفقت سے پیش آئے بلکہ بڑی دیر تک دونوں کو اپنے پاس بٹھائے رکھا اور اپنا غم شیئر کرنے کے علاوہ اسماعیل صاحب شہید کو یاد کر کے ان کے حوالے سے اپنے صحافتی دنوں کی یادیں اور پرانی باتیں بھی یاد کرتے رہے۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کی کامل بخشش و مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے اور ان کے اہل خانہ کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔۔ آمین
خدا کی تجھ پہ رحمت ہو محمدﷺ کی شفاعت ہو
دعا میری سدا یہ ہے تجھے جنت میں راحت ہو
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔