جب مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ کرنے کا عندیہ دیا اور اے پی سی کی رہبر کمیٹی کی ملاقاتیں ہوئیں تو ہم نے اس مارچ کی حمایت کرنے کے لیے چند شرائط رکھیں۔
ایک شرط یہ تھی کے اگر تمام حزب اختلاف اس بات پر متفق ہے کہ الیکشن میں انجینرنگ اور دھاندلی ہوئی تو آزادی مارچ کا پڑاؤ الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے ہونا چاہیے۔ اس لیے کے صاف شفاف الیکشن کرانے کی ذمہ داری اس ادارے کی تھی۔ اس میں یہ ادارہ مسلسل ناکام ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ شرائط نہیں مانیں جس کے بعد ہم نے اس مارچ سے اختلاف کیا۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ آج تک پاکستان کی تاریخ میں الیکشن دھاندلی میں کسی ایک بھی سرکاری اہلکار کو سزا نہیں ہوئی۔
مولانا نے ہماری بات نہیں مانی اس لیے کے حزب اقتدار اور اختلاف دونوں دھاندلی زدہ الیکشنوں سے حکومت میں آتے ہیں۔ الیکشن سے بڑا فراڈ پاکستان میں اور کوئی نہیں ہے۔ الیکشن کا نظام اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ یہ قوم ہمیشہ چند لوگوں کی محکوم رہے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے صاف الیکشن اور ووٹ گننے کی ذمہ داری کس کی؟
میں نے پچھلے الیکشن میں این اے249 سے حصہ لیا تھا۔ الیکشن میں حصہ لینے کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کے جمہوریت پر اعتماد کا اظہار کیا جائے اور نظام میں حصہ لے کر اس کی ساخت کا اندازہ لگایا جائے تاکہ بہتری پیدا کی جا سکے۔ باہر بیٹھ کر کوئی شخص مکمل طور پر نظام کو نہیں سمجھ سکتا۔ الیکشن کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے پارٹی امیدواروں کا انتخاب۔ کسی جمہوری نظام میں امیدواروں کے انتخاب کا نظام اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ پارٹی ممبروں کی رائے کا احترام کیا جائے یعنی ووٹ کو عزت دینے کا یہ پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔
پارٹی کے عہدے داروں اور الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ امیدوار آئین کی شقوں پر پورا اترے، پارٹی کے نظریہ سے اتفاق کرتا ہو اور اچھی شہرت رکھتا ہو۔ لیکن حقیقت میں امیدواروں کے چناؤ میں پارٹی ممبران کو کوئی اختیار نہیں دیا جاتا بلکہ پارٹی کا سربراہ ہی منتخب کرتا ہے اور جتنے کرپٹ لوگ اسمبلیوں میں ہیں اس کی ذمہ داری پارٹی سربراہ پر ہے۔
آج تک نہ الیکشن کمیشن نے پارٹیوں سے پوچھا کے کس طریقہ کار کے تحت امیدوار چنے گئے اور کیا پارٹی آئین کے تحت یہ عمل کیا گیا۔ آج تک ان لوگوں کو سزا نہیں دی گئی جو کرپٹ لوگوں کو پارٹی ٹکٹ کے لیے نامزد کرتے ہیں اور نہ الیکشن کمیشن کو سزا دی گئی کے انہوں نے اس بات کو یقینی کیوں نہیں بنایا۔ پی ٹی آئی جو اپنے آپ کو تبدیلی کی پارٹی کہتی ہے اس میں آج ملک کے تمام مافیاز اور کرپٹ کا راج ہے جس کے ذمہ دار خود پارٹی کے اپنے ممبران ہیں جو اپنے آج کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور اس ملک کا بھی بیڑا غرق کر رہے ہیں۔
اب اگلے مرحلہ میں انتخابی مہم پر نظر ڈالتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق مقرر کیا ہے لیکن کوئی بھی امیدوار اس پر عمل نہیں کرتا۔ الیکشن کے دن کو ہی لے لیں۔ پولنگ ایجنٹ مفت نہیں ملتے بلکہ انہیں اس کام کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ وہ پارٹیاں جو انتہائی منظم ہیں انہیں بھی بمشکل 50 فیصد پولنگ ایجنٹ اپنے کارکنوں میں ملتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے حلقے میں اوسطا تقریباً 180 پولنگ سٹیشن ہوتے ہیں جس کے لیے 1800 افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر ان میں آدھے بھی معاوضہ لیں تو الیکشن کی دی ہوئی حد سے بھی زیادہ رقم خرچ ہو۔ ٹینٹ اور دوسرے خرچے اس کے علاوہ ہیں۔ ایجنٹ اس لیے بھی رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ گنتی کے وقت جیت کو یقینی بنائیں۔ ایک فعال اور ایماندار الیکشن کمیشن کی موجودگی میں جب ووٹ بیلٹ بکس میں ڈال دیا جائے تو ان کی امانت بن جاتا ہے اور گنتی کے لیے کسی ایجنٹ کی موجودگی نہیں ہونی چاہیے۔ مثلاً بھارت اور ترکی دونوں ملک میں الیکشن کمیشن گنتی کرتا ہے اور نتائج کا اعلان کرتا ہے۔ دیگر جمہوری ممالک میں بھی یہی نظام ہے۔ پاکستان میں اصل دھاندلی کے الزام میں کمیشن کے کسی اہلکار کو سزا نہیں دی گئی۔ الیکشن کمیشن پر کسی کو بھروسہ نہیں ہے کہ بیلٹ باکس میں موجود ووٹ ان کے حوالے کیا جا سکے اور وہ امانت میں خیانت نہ کریں۔ ہمیں صادق اور امین امیدوار نہیں بلکہ صادق اور امین الیکشن کمیشن چاہیے۔
اب آگے چلتے ہیں الیکشن میں دھاندلی اور بےضابتگی پر درخواستیں الیکشن ٹریبونل میں دی جاتی ہیں۔ تقریباً تمام درخواستیں امیدوار ایک دوسرے کے خلاف دیتے ہیں اور آج تک کسی الیکشن عہدےدار کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ جو حقیقت میں دھاندلی اور ووٹ چرانے کے ذمہ دار ہیں وہ صاف نکل جاتے ہیں اور انہیں کٹہرے میں لانے والا کوئی نہیں۔
ایک سیاستدان دھرنے اور مارچ کر کے یہ تاثر پیدا کرتا ہے کے قوم اس کے ساتھ ہے۔ جیسے عمران خان کا دھرنا، مولانا کا مارچ یا نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ۔ اس دوران انجینرز اور بااثر مافیاز کے ساتھ معاملات مکمل ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کو عمران خان کے دھرنے، آزادی مارچ اور ووٹ کو عزت دو کی تقریریں یاد ہوں تو ان سب میں ڈیل دو کی فریاد تھی۔ جب ڈیل ہو جاتی ہے تو الیکشن کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے جس میں ووٹ کے ذریعہ نہیں بلکہ دھاندلی کے ذریعہ نئی لاڈلی حکومت تشکیل پاتی ہے۔
موجودہ جمہوریہ ناکارہ اور بوسیدہ ہے اور ایک نئی جمہوریہ تشکیل دینی ہوگی جس میں ووٹ اور اس کی گنتی کو یقینی بنانا ہوگا۔