شامی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے درجنوں فوجی باغی تنظیم ’حیات تحریر الشام‘ کی قیادت میں کیے گئے ایک بڑے حملے میں مارے گئے، جن کے حلب شہر پر قبضے سے بشار الاسد حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حلب شہر پر یہ کارروائی خانہ جنگی کے دوران برسوں بعد باغیوں کا سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
بشار الاسد حکومت کا ماسکو کا قریبی اتحادی ہونے کے باوجود حیات تحریر الشام، جسے کبھی ’نصرہ فرنٹ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، کو امریکہ، روس، ترکی اور دیگر ریاستوں نے دہشت گرد گروپ قرار دیا ہے۔
روس کی وزارت دفاع نے کہا کہ اس کی فضائیہ نے شامی فوج کی حمایت میں باغیوں پر حملے کیے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ’وار مانیٹرنگ‘ نامی تنظیم نے بتایا کہ باغیوں نے ہفتے کو شام کے دوسرے سب سے بڑے شہر حلب کے بیشتر حصے پر قبضہ کرنے کے بعد حلب کے ہوائی اڈے اور قریبی درجنوں قصبوں پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا۔
حلب پر باغیوں کے قبضے کے بعد اپنے اماراتی ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں صدر بشار الاسد نے ’دہشت گردوں‘ کو شکست دینے کے عزم کا اظہار کیا۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق حالیہ لڑائی میں کم از کم 327 افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر جنگجو ہیں لیکن ان میں 44 عام شہری بھی شامل ہیں۔
’وار مانیٹرنگ‘ کے مطابق حیات تحریر الشام اور اس کے اتحادی دھڑوں نے کسی بڑی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر شہر، حکومتی مراکز اور جیلوں کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا۔
انہوں نے حلب میں شامی فوج کو پیچھے دھکیلتے ہوئے ہوائی اڈے پر بھی قبضہ کر لیا اور بغیر کسی مزاحمت کے درجنوں سٹریٹجک اہمیت والے قصبوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔
آبزرویٹری نے اطلاع دی کہ باغیوں کی پیش قدمی کے پیش نظر فوج نے شام کے چوتھے بڑے شہر حما سے فوجیوں کو نکال لیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن سرکاری میڈیا کے حوالے سے ایک فوجی ذرائع نے فوج کے پیچھے ہٹنے کی تردید کرتے ہوئے اصرار کیا کہ فوجی یونٹس اب بھی باغیوں کے راستے میں اپنی پوزیشن پر قائم ہیں۔
ادھر واشنگٹن میں امریکی قومی سلامتی کونسل نے کہا کہ وہ شام کی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران علاقائی دارالحکومتوں سے رابطے میں ہے۔
کونسل کے ترجمان شان سیویٹ نے کہا کہ شام میں فریقین کے سیاسی عمل میں شامل ہونے سے انکار اور روس اور ایران پر اس کے انحصار نے ’اب ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں، جس سے شمال مغربی شام میں اسد حکومت کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔‘
ترجمان نے کہا کہ امریکہ کا ’ایک نامزد دہشت گرد تنظیم‘ کی قیادت میں کی جانے والی کارروائی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور 2015 کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کے تحت امریکہ شام میں جنگ بندی اور سیاسی استحکام کی حمایت کرتا ہے۔
یہ خانہ جنگی، جس میں لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور دسیوں لاکھ بے گھر ہو گئے، 2011 کے بعد سے کسی رسمی انجام کے بغیر جاری ہے۔ یہ بڑی لڑائی برسوں پہلے اس وقت رک گئی تھی، جب ایران اور روس نے اسد حکومت کی تمام بڑے شہروں کا کنٹرول حاصل کرنے میں عسکری مدد کی تھی۔
حلب کو بشار الاسد حکومت نے 2016 میں فتح کے بعد سے اپنے قبضے میں لے رکھا تھا، جو اس جنگ کا اہم موڑ تھا۔