احتساب کے کوڑے نے معیشت کی کمر لال اور ہری کر دی ہے۔ ایک نیام میں دو تلواریں تو شاید اکٹھی ہو جائیں، پاکستان کی معیشت اور پاکستان کا احتساب ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا ہماری ترجیح کیا ہے؟
بادی النظر میں اس وقت یہی سوال عمران خان کو بھی دامن گیر ہے۔ ایک طرف ان کا سیاسی بیانیہ ہے جس میں احتساب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور دوسری طرف معاشی حقائق ہیں۔ وہ احتساب کے اپنے روایتی بیانیے پر مزید اصرار کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ معیشت کی تباہی کے سوا کچھ نہیں اور وہ اس بیانیے سے انحراف کرتے ہیں تو قومی منظرنامے میں اپنی انفرادیت سے محروم ہو جائیں گے۔
یہ وہ نکتہ ہے جہاں عمران خان تذبذب کا شکار ہیں۔ ایک جانب معاشی مسائل ہیں جو انہیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اپنے بیانیے سے انحراف کرتے ہوئے زمینی حقائق کے مطابق پالیسی تشکیل دیں۔ چنانچہ پہلے وہ ایمنسٹی سکیم لائے، پھراعلان کیا کہ کرونا فنڈ میں رقوم جمع کروانے والوں سے ان کا زریعہ آمدن نہیں پوچھا جائے گا اور اب تاجروں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ کنسٹرکشن کے شعبے میں پیسہ لگائیے آپ سے پیسوں کا حساب نہیں لیا جائے گا۔ یوں گویا وہ زبان حال سے اعتراف کر رہے ہیں کہ معاشی امکانات کی خاطر احتساب کے ضابطوں سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب ان کی سیاسی مجبوریاں ہیں۔ عشروں پر محیط مثالی بیانیہ ان کے قدموں کی زنجیر بن چکا ہے۔ ان کے کارکنان کا ان کی ذات سے جو رومان وابستہ ہے، احتساب اس کا بنیادی نکتہ ہے۔ اس سے انحراف کرتے ہیں تو رومان دم توڑ دے گا۔ وہ اس رومان کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ مسند اقتدار تک پہنچنے میں یہ بیانیہ ان کا زاد راہ تھا، اب بوجھ بن چکا۔ اٹھاکر چلنا ممکن ہے نہ اتار کر رکھ دینا آسان ہے۔ معاشی مسائل کو دیکھ کر احتساب کے دیرینہ بیانیے سے انحراف بھی کر ہے ہیں اورکابینہ ہی کے فیصلے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران پر رپورٹ آ جانے کے بعد اپنے رفقاء کے خلاف کارروائی کا تاثر بھی دے رہے ہیں۔ اس کارروائی میں البتہ یہ ذو معنی اہتمام موجود ہے جس وزیر پر انگلی اٹھی اس کا محض قلمدان بدلا گیا۔ خسرو بختیار اب ایک اور شعبے کے وزیر ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں احتساب، محض کتابی معاملہ نہیں، یہ بھوت پریوں کی کوئی الف لیلوی داستان بھی نہیں کہ اس کا رومان باقی ہو۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے، نصف صدی سے کچھ زیادہ وقت سے یہ قوم جس کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ ایوب خان کا اپنا احتساب تھا، ضیاء الحق کا اپنا، نواز شریف کے احتساب بیورو کی اپنی ترجیحات تھیں اور پرویز مشرف کے نیب کی اپنی شان نزول تھی۔ عمران خان احتساب کے معاملے میں بھی آخری رومان تھا جو اس وقت ہی مجروح ہو گیا جب ٹکٹوں کی تقسیم ہوئی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ فقط زیب داستان ہے۔ آج یہ معاملہ شرح صدر کے درجے میں پہنچ چکا ہے کہ پاکستان میں احتساب کا کوڑا اس کی کمر پر نہیں برستا جو کرپٹ ہو بلکہ جس کی کمر لال اور ہری کرنا مقصود ہو اس کی کرپشن پکڑ لی جاتی ہے۔
احتساب، خلق خدا کی خواہش نہیں حسرت بھی ہے۔ لیکن ہماری ایک اپنی تاریخ ہے جو ہماری اجتماعی یادداشت میں ایک گرہ کی صورت موجود ہے۔ یہاں احتساب میں جب جب غیر معمولی اہتمام ہوا،احتساب کی روح مجروح ہوئی۔ ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ احتساب کے کوڑے کی شان نزول یہاں کبھی بھی کرپشن نہیں رہی، ہاں معتوب کی مزاج پرسی کے لیے کرپشن ایک ایسا فسانہ ضرور رہا جسے یہاں ہزار وں عنوانات کے ساتھ لکھا گیا۔
معاشی بحران سے دوچار یہ قوم آنکھوں میں پامال آرزوؤں کے صحرا لیے سراپا سوال ہے کہ کیا معتوب کی مزج پرسی کے لیے کوئی اور عنوان نہیں چنا جا سکتا؟ کرپشن کی گرہ لگا کر احتساب کا کوڑا برسانا کیا ضروری ہے؟ یہ کوڑا معتوب کی پشت پر کم اور ملکی معیشت کی پشت پر زیادہ اثرات چھوڑتا ہے۔ احتساب ضرور ہونا چاہیے اور ہوتا رہنا چاہیے لیکن معمول کی ایک کارروائی کی صورت میں ہونا چاہیے۔ کسی طوفان کی شکل میں اورکسی غیر معمولی وارفتگی کے ساتھ نہیں۔ وارفتگی آتی ہے تو خرابی آتی ہے، جب زیادہ ارفتگی آتی ہے تو زیادہ خرابی آتی ہے۔
یہاں وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ معاشی بدحالی کے دنوں میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر لوگوں کے ہنستے بستے کاروباروں پر بلڈوزر چلا دیے گئے۔ ہر طرف ایک ہی نعرہ تھا: ہم نے کسی کو نہیں چھوڑنا۔ معاشی اصلاحات اور ٹیکس کی نظام میں بہتری کا کوئی تدریجی بندوبست ہوتا تو مناسب ہوتا لیکن یہاں ایک ہی جست میں عشق کی تمام منازل طے کرنی کی خواہش میں وہ خرابی پیدا ہوئی کہ مارکیٹ خوف سے سہم گئی۔ پیسے کی نفسیات ہے کہ جہاں خوف ہوتا ہے یہ وہاں نہیں رہ پاتے۔ ایک دروازے سے خوف آتا ہے دوسرے سے سرمایہ نکل جاتا ہے۔ یہی پاکستان میں ہوا۔ سرمایہ دار نے مارکیٹ سے پیسہ نکال لیا۔ کاروباری سرگرمی بند ہو گئی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اب سرمایہ کاروں کی منتیں ہو رہی ہیں کہ آئیے اس شعبے میں پیسہ لگائیے آپ سے ذریعہ آمدن نہیں پوچھا جائے گا۔
معیشت محض ٹیکس کا بوجھ بڑھانے اور احتساب کا کوڑا لہرانے سے ٹھیک نہیں ہوتی۔ معیشت معاشی سرگرمی سے بہتر ہوتی ہے۔ معاشی سرگرمی ہو گی تو ٹیکس آئے گا اور اگر مارکیٹ میں ہی خوف اور جمود پیدا ہو جائے تو اس بد حال مارکیٹ سے آخر کتنا ٹیکس آپ نکال سکیں گے؟ کاش کوئی حساب کر سکے کہ احتساب کے اس سارے عمل میں، قومی خزانے میں کتنا پیسہ آیا اور اس خوف کی وجہ سے معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا حجم کیا تھا؟
بعد از خرابی بسیار، عمران خان کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ ملک محض نیب سے نہیں چلتے، خزانے میں چار پیسے ہونا بھی ضروری ہیں اور احتساب کا کوڑا لہرا نے سے معشیت ٹھیک نہیں ہوتی۔ لیکن زمینی حقائق اور سیاسی رومان آمنے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں۔ عمران خان کو فیصلہ کرنا ہو گاان کی ترجیح کیا ہے۔ معیشت یا احتساب؟
عمران خان نے جب مان لیا کہ معاشی سرگرمی اہم تر ہے تو پھر اپنے متاثرین کو اس پر قائل کرنا ان کے لیے مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ ایک اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے خان صاحب کو حق و باطل کا پیمانہ سمجھتے ہیں۔ دوسرا وہ یہ سنہری اصول خود ہی وضع کر چکے ہیں کہ یوٹرن لینے سے ہی برا لیڈر بنتا ہے۔ اگر یہ دو رہنما اصول پاکستان کی معیشت کو سنوار دیں تو اور کیا چاہیے۔