2014 کا دھرنا یا سیاسی دہشت گردی؟

جہانگیر ترین کے انکشافات کے بعد اب واضح ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے دھرنا انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک سازش کے ذریعے جمہوری اور قانونی طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے شروع کیا تھا۔

جولائی 2019 میں رحیم یار خان میں ایک جلسہ عام کے موقعے پر جہانگیر ترین مکے لہراتے ہوئے (سوشل میڈیا)

جہانگیر ترین کے سنسنی خیز انکشاف کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی قلعی مکمل طور پر کھل گئی ہے۔

انہوں نے 2013 میں اپنی پارٹی کی بری انتخابی شکست کو خراب منصوبہ بندی، کمزور امیدوار اور خاندانی سیاستدانوں کو ساتھ نہ ملانے سے جوڑ دیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے دھاندلی کا شور مچایا لیکن وہ چند نشستوں پر ہوئی جیسا کہ ہر الیکشن میں عموما ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی کے دھاندلی کے دعوے کے غبارے سے مزید ہوا نکالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب میں 50 فیصد نشستیں جو پی ٹی آئی ہاری، ان میں پی ٹی آئی کے امیدوار دوسری پوزیشن پر بھی نہیں تھے بلکہ تیسرے چوتھے اور پانچویں نمبروں پر تھے۔ جہاں پی ٹی آئی کے امیدوار دوسری جگہ پر تھے وہ بھی 20 فیصد سے کم حلقے تھے۔ یعنی پی ٹی آئی کے 2013 کے انتخابات جیتنے کے کوئی شماریاتی امکانات نہیں تھے۔

پی ٹی آئی کے سینیئر ذمہ دار عہدیدار اور پارٹی کے سب سے بڑے سرمایہ کار کے اس انکشاف کے بعد یہ بات اب طے ہوگئی ہے کہ 2013 میں ایک قانونی، جائز اور منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کے مینڈیٹ کو جان بوجھ کر اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت متنازع بنایا گیا جس سے نہ صرف پاکستان میں جمہوری اداروں کو کمزور کیا گیا بلکہ معاشی ترقی اور بین الاقوامی تعلقات کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا۔ یہ ایک طرح سے سیاسی دہشت گردی کا واقعہ تھا جس سے ایک قانونی طور پر قائم حکومت کا غیرآئینی طریقے سے تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی۔

پاکستان کے دارالحکومت کو تقریبا 126 دن تک محصور رکھا گیا اور حکومتی اداروں کو مفلوج کر دیا گیا۔ ہماری پارلیمانی تاریخ کی بدترین روایت قائم کرتے ہوئے پارلیمان پر پی ٹی آئی اور طاہرالقادری کے کارکن حملہ آور ہوئے۔ گو ان کا پارلیمنٹ پر قبضہ صرف سبزہ زار تک محدود رہا لیکن یہ ’سیاسی دہشت گرد‘ پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے جس کے نتیجے میں پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن کی نشریات اندرون و بیرون ملک روک دی گئیں۔ پی ٹی وی کی نشریات میں تعطل پہلے صرف فوجی بغاوتوں کے دوران آتا تھا۔ یہی ’سیاسی دہشت گرد‘ پولیس پر بھی حملہ آور ہوئے اور کئی پولیس افسران کو زخمی کیا۔ ان سیاسی دہشت گردوں نے وزیر اعظم کی رہائش کی جانب بھی ناکام پیش قدمی کی کوشش کی۔

جولائی 2019 میں اورکزئی ضلع سے منتخب آزاد رکن صوبائی اسمبلی غازی غزن جمال کو تحریک انصاف میں لانے کے وقت کی تصویر (سوشل میڈیا)


اس دھرنے کی وجہ سے پاکستان کو اربوں روپوں کا معاشی نقصان پہنچا، پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی آئی اور ملکی سرمایہ کاروں نے بھی اپنے ہاتھ روک لیے اور پورا ملک ایک معاشی جمود کا شکار ہو گیا۔ اس سیاسی دہشت کو اس وقت ایک نئی سطح پر لے جایا گیا جب پی ٹی آئی کے رہنما نے عوام کو سول نافرمانی پر اکساتے ہوئے انہیں بجلی اور گیس کے بل نہ ادا کرنے کا کہا۔ بات یہیں پر ہی نہیں رکی بلکہ یہ کوشش بھی کی گئی کہ عوام ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیں۔

منتخب حکومت سے دشمنی میں ملک کی معیشت کو اور کمزور کرنے کے لیے بیرون ملک تارکین وطن کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے انہیں غیرقانونی ہنڈی کا راستہ اختیار کرنے کو کہا گیا۔ FATF کی بعد کی سختیاں غالبا ہمارے سیاسی رہنماؤں کی انہی نادانیوں کی وجہ سے شروع ہوئیں۔

سی پیک منصوبے پر عمل درآمد کو ایک سال پیچھے دھکیل دیا گیا جب چینی صدر 2014 میں دھرنے کی وجہ سے پاکستان نہ آ سکے۔ انہیں اپنا دورہ اور سی پیک معاہدے پر دستخط 2015 تک موخر کرنا پڑے۔ انہی صفحات پر کچھ دن پہلے سابق سفیر جاوید حسین نے کہا کہ امریکہ چین کے پاکستان اور علاقے میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو کم کرنے اور اسے پیچھے دھکیلنے کے لیے پاکستان میں ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت کام کر رہا ہے اور دھرنے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے حکومت کو مفلوج کرنے کی اس کوشش کی ایک آزادانہ تحقیق کی ضرورت ہے۔ کیا دھرنے کے منتظمین دانستہ یا نادانستہ طور پر اس امریکی منصوبے کا حصہ بنے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جہانگیر ترین کے انکشافات کے بعد اب واضح ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے دھرنا انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک سازش کے ذریعے جمہوری اور قانونی طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے شروع کیا تھا، تو ضروری ہے کہ جمہوریت کے خلاف اس سازش کی جامع اور آزادانہ تحقیقات کی جائیں تاکہ مستقبل میں جمہوری اداروں کے خلاف اس قسم کی سازشوں کا راستہ روکا جاسکے۔ یہ تحقیق حمود الرحمٰن کمیشن کی طرز کا ایک آزاد کمیشن کر سکتا ہے۔

موجودہ حکمران جماعت چونکہ اس دھرنے کی خالق تھی اور بظاہر اس سازش میں شریک بھی تھی، تو ان سے اس تحقیق کے لیے ایک آزاد کمیشن قائم کرنے کی امید رکھنا تو ممکن نہیں۔ اس لیے سپریم کورٹ کو آگے بڑھ کر جانگیر ترین کے اس بیان کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اور اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے خود سے اس کمیشن کے قیام کا اعلان کر دینا چاہیے۔

سپریم کورٹ میں اس طرح کی تحقیقات کرانے کی مثال موجود ہے۔ عدالت عظمیٰ نے حال ہی میں پاناما مقدمے کی تحقیق کے لیے ایک جے آئی ٹی کی تشکیل دی تھی۔ اس کے ممبران بھی سپریم کورٹ نے خود منتخب کیے اور بہت سارے مجوزہ ناموں کو اپنی تحقیق کے بعد فہرست سے خارج کر دیا تھا۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی سپریم کورٹ کو پیش کی گئی تھی جس کی بنیاد پر تاریخ ساز فیصلے کیے گئے۔ دھرنے سے چونکہ پاکستان کی آئینی اور جمہوری اساس پر حملہ کیا گیا تھا تو امید ہے کہ سپریم کورٹ آئین کی حفاظت کے لیے اپنے آئینی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کمیشن کا قیام کرے گی اور عوام کو اس سازش کی تہہ تک پہنچنے میں مدد گار ہوگی۔

بظاہر یہ دھرنا ایک طرح کی بغاوت کی بھی کوشش تھی تو ضروری ہے کہ کمیشن اس سازش کے سارے سیاسی اور غیر سیاسی کرداروں کو بےنقاب کرنے کے علاوہ ان کے لیے مناسب سزا بھی تجویز کرے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ