سال بھر سے انتظار تھا کہ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کا کوئی حتمی اعلان ہو تو انہیں چند مشورے دے کر کار خیر میں ہم بھی حصہ دار ہو جائیں۔
دو ماہ تو اسی کشمکش میں نکل گئے کہ مولانا آ رہے ہیں کیونکہ ’وہ‘ غصے میں ہیں، مولانا نہیں آ رہے کیونکہ ’وہ‘ منا رہے ہیں۔ اب جب کہ مولانا کی آمد تقریباً طے ہو چکی ہے تو چند سفارشات عرض ہیں۔
سب سے پہلے تو مولانا صاحب اپنے وہ فرمودات عوام کی نظروں سے اوجھل کریں جن میں وہ دھرنا کلچر کو بغاوت گردانتے تھے، عمران خان اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے سے کم پر راضی نہ تھے۔ آج مولانا فضل الرحمن بھی وزیر اعظم عمران خان کی رخصتی چاہتے ہیں۔ دونوں دھرنوں کا مدعا تو ایک ہی ہے گرچہ طریقہ کار مختلف ہوں۔ اگر وہ خان صاحب کی بغاوت تھی تو آج مولانا بھی باغی ہیں۔
مولانا فضل نے عمران خان کے دھرنے کے خلاف ایک فوں فاں پر مبنی بڑی شاندار تقریر کی تھی جس میں کہا تھا کہ جب صورت حال تصادم کی طرف جاتی ہے تو کوئی اور طاقت فائدہ اٹھاتی ہے۔ مولانا صاحب کو یقینی بنانا ہو گا کہ ان کے دھرنے کا فائدہ ملکی سیاست میں کوئی تیسرا ’ڈاڈا اور تگڑا‘ فریق نہ لے اڑے۔
آپ مولانا کی فراخ دلی کو داد دیں کہ اگر عمران خان چلے جائیں، نئے انتخابات ہو جائیں تب بھی مولانا کی جماعت کا پورے ملک کیا صرف ایک صوبے میں بھی حکومت بنانے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ مولانا کو لے دے کر ایک کشمیر کمیٹی اور منسٹرز انکلیو میں ایک بنگلہ ہی ملنا ہے، یہ جانتے بوجھتے بھی اگر وہ سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیار ہیں تو مولانا واقعی بڑے دل والے ہیں۔
یہ تو طے ہے کہ جے یو آئی ایف کے کارکن نعرے لگا لگا کر گلے خشک کر لیں اور دھرنا کامیاب بنا دیں، تب بھی دھرنے کا ممکنہ بینفشری کم از کم اکیلے مولانا نہیں۔ یہ ایسا ہی ہو گا کہ دکھ جھیلے بی فاختہ اور کوا انڈے کھائے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ مولانا صاحب اپنے حصے کی بوٹی کے لیے اگلے کی پوری گائے ذبح کرنے کے چکر میں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مولانا بڑے زیرک بلکہ انتہائی گھاگ سیاست دان ہیں۔ ایسے ہی تو نہیں ہر حکومت میں ایڈجسٹ ہو جاتے۔ یہ شیخ رشید کی طرح قربانی کی تاریخ نہیں دیتے ہاں مگر قربانی کا وقت کب آئے گا ان سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ مولانا کو اندازہ ہے کہ وزیر اعظم خان کی حکومت کی حمایت کرنے والے اب پچھتا رہے ہیں۔ عمران خان کے لیے بچھائی گئی بساط کے مہرے اِدھر اُدھر لڑھک رہے ہیں۔ حکومت کے دن جب بھی گنے جائیں گے گنتی مولانا کے دھرنے سے شروع ہو گی۔
اب جب کہ دھرنا اٹل ہے تو مولانا کو کچھ اہم امور پر بھی غور کر لینا چاہیے۔ جیسا کہ سیاہ و سفید پارٹی پرچم کی طرح دھرنے میں بھی حضرات سیاہ و سفید کپڑوں میں ملبوس ہوں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دھرنے میں کچھ رنگ بھی بھر لیے جائیں۔ اگر مولانا دھرنے میں جے یو آئی ایف کے کارکنوں اور ووٹر خواتین کو بھی ساتھ لانے کا اہتمام کریں تو کم از کم ان خواتین و حضرات المعروف لبرلز کا بھی بھرم رہ جائے جو بغض عمران خان میں مولانا کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی کو سیاست کرتے ایک زمانہ ہوا ہے۔ مولانا صاحب سیاست میں خواتین کے کردار کو بھی ضرور مانتے ہوں گے۔ انہیں اپنی جماعت کی طاقت منوانے کے لیے سڑکوں پر صرف مدارس کے طلبہ نہیں ہر طبقہ فکر سے افراد سامنے لانا ہوں گے۔ مولانا کے دھرنے میں خواتین کی شرکت سے اس غلیظ تاثر کو زائل کرنے میں بھی مدد ملے گی کہ اب قوم یوتھ کو قوم لوط کا سامنا ہے۔
مولانا کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ صرف مردوں کا نہیں عوام کا دھرنا ہے اور عوام میں ہر عمر کی خواتین شامل ہیں۔
طاہر القادری مولانا فضل الرحمن کی طرح مذہبی و سیاسی شخصیت ہیں۔ مولانا صاحب کو چاہیے کہ وہ طاہر القادری کے دو کامیاب دھرنوں پر ایک مختصر جائزہ رپورٹ بھی تیار کروا لیں جن سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ دھرنے کے شرکا کو مسلسل انگیج رکھنے کے لیے کون کون سے کرتب درکار ہیں۔
دن کو اپنا موبائل فون چارج کرتے، یہاں وہاں دو چار درخت پھول پودے توڑتے، دکان سے نسوار سگریٹ پان چھالیہ ڈھونڈتے، دل پشوری کرتے اور میڈیا والوں کو دیکھ کر دو چار نعرے لگاتے ختم ہو جائے گا، مگر ٹھنڈے موسم کی لمبی راتیں کیسے کٹیں گی؟ اس کے لیے مولانا فضل الرحمٰن دراصل طاہر القادری کے تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
جب رات ڈھلے دھرنے کے شرکا کا جذبہ ٹھنڈا پڑنے لگے تو حکومت کو گرنے کے لیے نماز فجر کا الٹی میٹم دے دیا جائے۔ وقت پورا ہو جائے تو اس مہلت کا وقت بڑھا کر نماز عصر کیا جا سکتا ہے۔
نوجوانوں کی ٹولیوں کو اچھے دن قریب آنے کے خواب دکھاتے روزانہ دو سے تین گھنٹے گزارے جا سکتے ہیں جبکہ یہ اعلان کہ ایک اہم حکومتی رہنما ہاتھ جوڑے مذاکرات کے لیے آنا چاہتا ہے ’بتاؤ میرے کارکنو، کیا اسے اجازت دے دوں؟‘ ظاہر ہے بپھرے ہوئے مجمعے سے جواب نفی میں آنا ہے۔ یوں اس مصروفیت میں گھنٹہ دو گھنٹے نکل سکتے ہیں۔
جس دن لگے کہ آج دھرنے والوں کے ارمانوں پر مارگلہ کے پہاڑوں سے اٹھنے والے بادلوں کی اوس پڑ رہی ہے، بس اسی روز لٹھے کے چند گز کپڑے کا انتظام کر کے سٹیج سے کفن پوش دھرنے کا اعلان کرنا بھی سود مند ہو گا۔ نیز یہ کہ میڈیا کو بھی بریکنگ کے ’پھٹے‘ مل جائیں گے اور طاہرالقادری کے دھرنے کی یادیں بھی تازہ ہو جائیں گی۔ ایسے ہی ماہ اکتوبر کے بجلی کا بل جلانے کا سٹنٹ بھی کھڑکی توڑ رش لے سکتا ہے، یوں خان صاحب کو بھی کنٹینر کی وہ شامیں اور راتیں یاد آئیں گی۔
مولانا صاحب کے باذوق کارکنوں نے دھیمی پس پردہ موسیقی کے ہمراہ کچھ تحریکی ترانے بنائے ہیں مگر وہ کافی نہیں۔ تحریک انصاف اور طاہر القادری کے دھرنے نے جو معیار طے کیے ہیں مولانا کو انہیں سامنے رکھ کر منصوبہ ترتیب دینا ہو گا۔ فاقہ مستی میں ڈوبی عوام کی سوئی ہوئی روح کو جگانے کے لیے کانوں کا پردہ پھاڑ دینے والے ساؤنڈ سسٹم کی ضرورت ہے۔ ویسے مولانا کی پارٹی کو ڈی جے بٹ سے مشورے کی ضرورت نہیں، میگا فون اور لاؤڈ سپیکر کا استعمال مولوی سے بڑھ کر کون جانتا ہو گا۔
مولانا اگر طے شدہ پلان کے مطابق اکتوبر کے آخر میں اینٹری دیں گے تو شہر اقتدار کا موسم مزید ٹھنڈا ہو جائے گا۔ ایسے میں مولانا کے لیے گرمی بازار برپا کرنا اتنا آسان نہ ہو گا۔ کارکنوں کو رضائیاں کمبل ساتھ لانے کا کہا گیا ہے مگر مورال ہائی رکھنے کے لیے مولانا کو کچھ ہائی لیول کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں مولانا خادم رضوی اینڈ کمپنی کا تجربہ خاصا وسیع ہے۔ اب یہ خادم رضوی یا ان کے کارکنان ہی بتا سکتے ہیں کہ انہیں فیض آباد دھرنے کے دوران پڑنے والی ٹھنڈ سے لڑنے کے لیے بادام، کھجور اور کاجو کی پیٹیاں کون پہنچاتا تھا۔ سپلائی چین پر سوال اٹھانا تو ایک جج تک کو مہنگا پڑ گیا۔ میں ایسا ایڈونچر نہیں کر سکتی جیسا کہ پچھلے کالم میں ہی کہہ چکی ہوں کہ ’جان بہت پیاری ہے اور تنخواہ بہت تھوڑی ہے۔‘
وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کہتے ہیں کہ کیا معلوم مولانا رات کو سوئیں اور صبح انہیں ہدایت مل جائے، لیکن جب تک مولانا کو ’ہدایت‘ کی روشنی نہیں ملتی تب تک دھرنے کی تاریک راتوں کو مقدر کا لکھا سمجھ کر خان صاحب کی ٹیم کو تیاری کر لینی چاہیے۔
عمران خان کی ٹیم کو دھرنا دینے کا تو بھرپور تجربہ ہے مگر دھرنا روکنے کے لیے کون سی مہارت درکار ہے یہ نیٹ پریکٹس کے بس کا کھیل نہیں۔ یہ تو مولانا کی دی ہوئی تاریخ ہی بتائے گی۔