کورونا کی وجہ سے رمضان کی رونقیں بھی ماند لگنے لگی ہیں۔ کہاں ہم رشتہ داروں سے ملتے تھے، افطاریاں ہوتی تھیں وہیں اب بالکل ہی تنہائی۔ لیکن اس تنہائی کا ایک فائدہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اپنے مالک سے قریب ہونے کا بہترین موقع مل گیا۔
لیکن ایسے میں گزرا وقت بھی یاد آتا ہے جب دادا جان کے ساتھ دسترخوان پر سب بچے بیٹھ کر اپنے پہلے روزے پر ان سے داد سمیٹ رہے ہوتے تھے۔ سکول کے دن بھی یاد آنے لگے۔ مثال کے طور پر جب امتحان میں سوال آتا کہ پاکستان میں کون کون سی چیز بنتی ہے تو جواب میں لکھتے لیدر گڈز، سرجیکل انسٹرومینٹس اور سپورٹس گڈز۔ اور یہ کہاں بنتے ہیں؟ جی، سیالکوٹ میں۔
اب ہوا کچھ یوں کہ جیسے جیسے وقت گزرا ہمیں ایک عادت پڑ گئی اور وہ عادت ہے درآمد کرنے کی۔ کچھ بھی ہو پاکستان ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز دیگر ممالک سے درآمد کرتا رہا۔ اور آج بھی کر رہا ہے۔
ہم خود کوایک زرعی ملک کہتے ہیں لیکن دالیں بھی ہم درآمد کرتے ہیں۔ کپڑا پاکستان کا دنیا میں جاتا تھا اب دنیا میں بنگلہ دیش کا کپڑا بکتا ہے۔ جب کورونا وائرس پاکستان آیا تو سب سے زیادہ مسئلہ ہمیں وینٹی لیٹر، ماسک، دستانے، سینیٹایئزر وغیرہ کا پیش آتا نظر آیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی پتہ لگا کہ ہسپتالوں کا تو حال بوسیدہ تھا ہی ساتھ ہی ان ہسپتالوں میں 22 کروڑ عوام کے لیے صرف 1300 وینٹی لیٹر موجود ہیں اور ان میں سے بھی بہت سے خراب ہیں۔
اس وقت دنیا میں جو تین چیزیں اس وبا کا علاج کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں وہ سب مسلمانوں کی ایجادات ہیں۔ کورونا سے بچنے کی خاطر جس صابن سے آج ہم ہاتھوں کو دھو رہے ہیں کیمیا کے مشہور سائنسدان محمد ابن زکریا الرازی نے ایجاد کیا تھا۔ الکوحل کی جراثیم کُش خصوصیات الرازی نے ہی متعارف کرائیں۔ قرنطینہ جو کہ اس بیماری سے بچاو کا انتہائی اہم طریقہ کار ہے وہ مشہور مسلمان سائنسدان ابن سینا نے متعارف کروایا جس کو اس وقت انہوں نےالعربینیہ کا نام دیا جو کہ 40 دن پر محیط علیحدگی کادورانیہ تھا۔
اب جب ہم یہ جان کر پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں تو اقبال کا شعر یاد آتا ہے کہ
وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
ہم اپنی علم کی میراث بھلا بیٹھے جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا ہی زوال کا شکار رہی۔ اور ہم تو خاص طور پر احساس کمتری کا بھی شکار ہوتے ہیں کہ چیز وہی جو امپورٹد ہو ورنہ ہماری شان کے خلاف ہے۔
لیکن جب کوئی بھی مصیبت آتی ہے تو وہیں اپنے ساتھ بہت سے مواقع بھی لاتی ہے۔ پاکستان کے لیے بھی کئی مواقع آئے اور خوشی کی بات ہے کہ حکومت کو وہ مواقع نظر آئے اور ان کی طرف کام ہونا شروع ہوگیا۔
چند دن پہلے میں نے ایک نمائش کی میزبانی کی جہاں میں نے وہ تمام چیزیں دیکھیں جو صرف دو ماہ کے اندر پاکستان میں بننی شروع ہوگئیں حالانکہ جب پاکستان میں کورونا کا پہلا کیس آیا تھا اس وقت ہم ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں بنا رہے تھے۔ یہ یقینا ایک خوش آئند بات ہے جس کا سہرا وفاقی وزیر فواد چوہدری کے سر ہے اور بنیاد اس کی وزیر اعظم عمران خان نے رکھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فواد چوہدری نے تقریب ’میڈ ان پاکستان‘ میں وزیر اعظم کو اور قوم کو بتایا کہ پاکستان نہ صرف جراثیم کش محلول، وینٹی لیٹرز، دستانے، ڈاکٹروں کے لیے باڈی سوٹ، شیلڈز، گاگلز، یو وی سینیٹایزرز وغیرہ پاکستان میں بنا کر اپنی ضروریات پوری کرےگا بلکہ دنیا میں بھی بھیجےگا اور زرمبادلہ کمائےگا۔ فواد چوہدری نے اعلان تو کر دیا لیکن ماسکس اور دیگر اشیا کی کوالٹی کے حوالےسے سوالات اٹھنے لگے تو انہوں نے میرے پروگرام میں میرے ہی سوال کے جواب میں اس بات کی تسلی کرائی اور کہا کہ پاکستان جو کچھ بنا رہا ہے وہ سب یورپی معیار کے مطابق ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان یہ تمام اشیا دیگر ممالک میں بھیجےگا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں ورنہ وہ ممالک ہم سے کیوں خریدیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان کو اس حوالے سے مزید یہ کرنا چاہیے کہ وہ ایک کمیٹی یا ٹاسک فورس بنا دیں جس میں اس بات کا تعین کیا جائے کہ کون سی ایسی چیزیں ہیں جوکہ پاکستان میں بنائی جا سکتی ہیں اور ابھی تک ہم درآمد کر رہے ہیں۔
پاکستان کی 22 کروڑ آبادی ہے، ہر گھر میں تین بچے ہیں لیکن پاکستان ڈائیپر بھی درآمد کرتا ہے۔ آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹروں اور عملے کے زیر استعمال کپڑے جنہیں سکربز کہا جاتا ہے وہ بھی پاکستان درآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈائیلسز اور الٹرا ساونڈ مشینز وغیرہ بھی پاکستان باہر سے خریدتا ہے۔ تو اس کمیٹی میں ایسی تمام چیزوں کا باقائدہ جائزہ لیا جائے اور ان تمام اور ان جیسی دیگر اشیا پاکستان میں بنانے کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔
اس قوم میں ہر قسم کی صلاحیت موجود ہے اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ 26 فروری تک جب پاکستان میں کورونا کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی تو اس وقت تک ہم سب کچھ باہر سے منگوا رہے تھے۔ اور دو مہینوں کے اندر اندر پاکستان کا وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نہ صرف اعلان کر رہا ہے کہ ہم کورونا سے بچنے کے لیے استعمال ہونے والی زیادہ تر چیزیں پاکستان میں بنانے لگ گئے ہیں بلکہ پوری قوم کو میڈیا کے ذریعے نمائش میں وہ تمام اشیا دکھا بھی رہا ہے۔
پاکستان کا نوجوان دنیا میں کسی سے پیچھے نہیں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اسے وہ وسائل، تعلیم اور حمایت ملے تاکہ وہ دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے نوجوانوں سے علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مقابلہ کر سکے۔
کبھی کسی سیاسی قیادت نے اس طرف توجہ نہیں دی تھی اس کے باوجود ہمارے نوجوان کے ذہن پر زنگ نہیں لگا تو اب جب’میڈ ان پاکستان‘ کی جانب ہم قدم بڑھا چکے ہیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والا وقت اس قوم کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔