جمعرات (12 مارچ) کی صبح مجھے دفتر سے ای میل موصول ہوئی، جس میں پشاور کے نشتر ہال میں خواتین کی ہاتھ سے تیار کردہ مصنوعات کی نمائش کا ذکر تھا۔
نمائش کے لیے صبح 11 بجے سے شام 5 بجے تک کا وقت مقرر تھا۔ میں راستے کی بھیڑ بھاڑ سے نکل کر جب نشتر ہال پہنچی تو ڈیڑھ بج رہے تھے۔
خواتین کے سٹال نشتر ہال کے لان میں سجائے گئے تھے، جس میں حصہ لینے والی زیادہ تر وہ خواتین تھیں، جو مختلف وجوہات کے پیش نظر دارالامان میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
کچھ دیہات سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی تھیں جو حکومتی سوشل ویلفیئر ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں اور دفتر سے ہدایات ملتے ہی سٹال لگانے حاضر ہو جاتی ہیں۔
ایک خاتون لبنیٰ بی بی نے بتایا، ’مجھے کل رات ہی سٹال لگانے کا کہا گیا۔ وقت پر بتاتے تو تیاری کے ساتھ آتی۔‘
ایک سٹال پر موجود فرخندہ نامی ادھیڑ عمر خاتون نے بتایا کہ وہ بیوہ ہیں اور گھر کا کرایہ اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے جیولری بنا کر فروخت کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’یہاں سٹال لگانے کے نہ ہم سے پیسے لیے جاتے ہیں اور نہ ہی ہمیں کسی سے پیسے ملتے ہیں۔ بس جو لوگ ہم سے اشیا خریدتے ہیں، وہی ہمارا منافع ہوتا ہے۔‘
خلاف توقع مجھے وہاں بہت کم خریدار نظر آئے، البتہ نشتر ہال کے لان میں نمائش کی باگ ڈور سنبھالنے والے چند مرد و خواتین کے علاوہ وہاں کچھ ایسے نوجوان مرد بھی دکھائی دیے، جنھوں نے گلے میں کارڈ آویزاں کر رکھے تھے اور مسلسل خواتین کو ’تاڑ‘ رہے تھے۔
جبکہ دوسری جانب تمام سٹالوں پر بڑے بڑے کارڈز لگائے گئے تھے، جن پر انگریزی میں خواتین کے حقوق اور معاشرتی رویوں سے متعلق چھوٹے چھوٹے پیغامات درج تھے۔
یہ نمائش حقوق نسواں کے اداروں کی جانب سے خواتین کے حقوق کے عالمی دن کی توثیق کے طور پر منعقد کی گئی تھی۔ جس سے ہنر مند خواتین کی حوصلہ افزائی اور انھیں معاشی فائدہ پہنچانا مقصود تھا۔
دیکھا جائے تو دراصل ان خواتین کو آگے لانا اور ان کو فائدہ پہنچانا ہی معاشرے اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے، لیکن یہ نمائش مجھے محض ایک خانہ پری نظر آئی، جس کی چند وجوہات یہ ہیں۔
1۔ نمائش کا مقام نشتر ہال نہیں ہونا چاہیے تھا، گو کہ یہ پشاور کا واحد سرکاری ثقافتی ہال ہے، لیکن یہ ایک ایسی جگہ پر واقع ہے جس کے آس پاس صرف سرکاری عمارتیں ہیں اور یہاں تک جانے والی تمام شاہراہیں نہایت مصروف رہتی ہیں اور جب تک فیملیز کی اپنی دلچسپی نہ ہو وہ ایسی جگہوں پر جانا پسند نہیں کرتیں۔
2- نشتر ہال، پریس کلب کے نزدیک تو ہے لیکن عام عوام سے دور ہے۔ صرف میڈیا کوریج مل جانے سے ضرورت مند اور ہنر مند خواتین کو فائدہ نہیں پہنچتا۔
3- اس نمائش میں جو سامان رکھا گیا تھا، اس کا زیادہ تر حصہ معیاری کام کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا تھا۔ گو کہ کچھ چیزیں اچھی تھیں اور وہ صبح ہی صبح ’ہاٹ کیکس‘ کی طرح فروخت بھی ہوگئیں۔ مطلب یہ کہ کام اچھا ہوگا تو ضرور بکے گا اور دام بھی زیادہ ملیں گے۔ لیکن اگر کام غیر معیاری اور کم پُر کشش کام ہوگا تو لوگوں سے صرف ہمدردی ہی ملے گی، بلکہ ایسی نمائش کو دیکھنے جانے کو لوگ وقت کا ضیاع سمجھیں گے۔
4- نمائش کو مقررہ وقت سے پہلے یعنی تقریباً 2 بجے کے قریب ختم کر دیا گیا۔
5- حقوق نسواں سے متعلق پیغامات پر مبنی کارڈز کو اگر اردو میں چھپوایا جاتا تو کم از کم عام لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی۔
6- اس نمائش میں زیادہ تر دارالامان میں رہنے والی خواتین اپنے مصنوعات لے کر آئی تھیں۔ ان کے بقول انہیں اس کی تربیت ملتی ہے۔ اگر یہ ادارے ان کے کام میں عمدگی لائیں تو کچھ عجب نہیں کہ یہ خواتین بہت جلد معاشی اعتبار سے خود مختار بن جائیں گی، ورنہ اس طرح کی نمائشوں سے صرف خانہ پری تو ہوگی، بڑے لوگوں کا بول بالا ہوگا، لیکن ضرورت مند خواتین کا کچھ بھلا نہ ہوگا۔