میرپور: برطانوی خاتون کو جنسی ہراساں کرنے والا ایس ایچ او برطرف

محکمہ پولیس کے مطابق ایس ایچ او چوہدری عمران پر محکمانہ انکوائری میں خاتون کے ساتھ جنسی ہراسانی کا الزام ثابت ہوا ہے۔

برطانوی خاتون فرخندہ رحمٰن یکم مارچ، 2025 کو میرپور میں پریس کانفرنس کر رہی ہیں (ندیم شاہ)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور میں محکمہ پولیس نے کشمیری نژاد برطانوی خاتون فرخندہ رحمٰن کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے ایس ایچ او چوہدری عمران کو ملازمت سے برطرف کر دیا ہے۔

برطرفی کا باقاعدہ اعلان محکمہ پولیس نے ایک باضابطہ پریس ریلیز کے ذریعے کیا، جس کے مطابق چوہدری عمران پر محکمانہ انکوائری میں خاتون کے ساتھ جنسی ہراسانی کا الزام ثابت ہوا ہے۔

25 فروری 2025 کو ایک ایف آئی آر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جو فرخندہ رحمٰن کی مدعیت میں درج کی گئی تھی۔ ایف آئی آر میں جنسی ہراسانی کی دفعات APC 342/506، 509 اور 18 زیڈ اے شامل تھیں۔

فرخندہ رحمٰن نے ایف آئی آر میں الزام عائد کیا تھا کہ ایس ایچ او تھانہ تھوتھال چوہدری عمران انہیں ان کا کیس ڈسکس کرنے کے لیے تھانہ پولیس لے جانے کے بہانے اپنی گاڑی میں بٹھا کر زبردستی اپنے گھر لے گئے اور پانچ گھنٹے تک ان سے زبردستی کی کوشش کرتے رہے۔

ایف آئی آر کے مطابق وہ اس ضمن میں اپنا بیان ایس ایس پی میرپور کو قلم بند کروا چکی ہیں اور واقعے کی آڈیو ریکارڈنگ بھی ان کے پاس موجود ہے۔

ایف آئی آر منظر عام پر آنے کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا، جن میں ملزم کی گرفتاری اور برطرفی کے مطالبات کیے گئے۔ بیرون ملک کشمیریوں نے بھی لندن میں مظاہرہ کیا، جبکہ یہ معاملہ برطانوی رکن پارلیمنٹ (شفیلڈ) ابتسام محمد نے برطانوی پارلیمنٹ کی فارن کمیٹی میں اٹھایا۔

فرخندہ رحمٰن مستقل طور پر برطانیہ میں مقیم ہیں اور میرپور شہر سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے یہاں ایک مکان کرائے پر دے رکھا تھا، جس سے پیدا ہونے والے تنازعے پر انہوں نے پولیس سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔

ابتدائی طور پر انہوں نے کرایہ دار سے گھر خالی کروانے کے لیے ایس ایس پی میرپور خاور علی شوکت سے رابطہ کیا اور تحریری درخواست دی، جس کے بعد ان کا کیس ایس ایچ او تھانہ تھوتھال چوہدری عمران کے سپرد کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

25 فروری کو ایف آئی آر کے منظر عام پر آنے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے محکمہ پولیس سے رابطہ کر کے دریافت کیا کہ آیا چوہدری عمران کو گرفتار کیا گیا ہے؟

اس پر آئی جی آفس کی جانب سے بتایا گیا کہ ملزم روپوش ہے اور اس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ تاہم چوہدری عمران کو فوری گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

بعد ازاں 28 فروری کو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ یکم مارچ کو فرخندہ رحمٰن نے کشمیر پریس کلب میرپور میں سول سوسائٹی کے نمائندگان اور وکلا کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں پولیس پر کیس کو کمزور کرنے اور ملزم کو بچانے کے الزامات عائد کیے۔

اس موقع پر انہوں نے واقعے کی آڈیو ریکارڈنگ بھی صحافیوں کے حوالے کی۔

ان الزامات کی روشنی میں آئی جی کشمیر رانا عبدالجبار نے سینیئر آفیسرز پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کے احکامات جاری کیے اور کمیٹی کو ہدایت کی کہ وہ رپورٹ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق اور آئی جی کشمیر کو فوری طور پر فراہم کرے۔

وزیر اعظم کشمیر چوہدری انوار الحق نے دو مارچ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ملزم سمیت دیگر ذمہ داران کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔

کمیٹی کی تحقیقات مکمل ہونے کے تقریباً ایک ماہ بعد، آج کشمیر پولیس نے چوہدری عمران کو ملازمت سے برطرف کرنے کی باضابطہ پریس ریلیز جاری کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا