بھٹو صاحب کو خوش فہمی تھی آئین میں آرٹیکل 6 متعارف کروا کر انہوں نے جمہوریت کو محفوظ بنا لیا ہے، آج اپنی خوش فہمی سمیت وہ گڑھی خدا بخش میں دفن ہیں۔
نواز شریف اور آصف زرداری کا بھی خیال تھا اٹھارویں ترمیم کے بعد جمہوریت مزید طاقتور ہو گئی ہے، زمین میں گڑی حقیقت مگر یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اس وقت عملا جمہوریت کا نوحہ ہی پڑھ رہی ہیں۔ امر واقع یہ ہے جمہوریت اور پارلیمان کا تحفظ آئین کا کوئی آرٹیکل نہیں کر سکتا۔ کوئی آئینی موشگافی نہیں بلکہ یہ اہل سیاست کا اخلاقی وجود ہے جو جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ سوال یہ ہے اہل سیاست اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں کتنے حساس ہیں؟
حیران کن مراعات کے بعد جب یہ معزز اراکین پارلیمان ایوان میں تشریف لاتے ہیں تو ان کی دل چسپی کا میدان کیا ہوتا ہے اور ان کی بلندی فکر کا عالم کیا ہوتا ہے۔ اس کے چند مظاہر میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔
میرے سامنے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا 24 جنوری کا نوٹس رکھا ہے۔ اس نوٹس کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے استحقاق کا ایک اجلاس طلب فرمایا گیا ہے۔ نوٹی فیکیشن بتا تا ہے کہ کچھ معزز اراکین اسمبلی کا استحقاق مجروح ہوا ہے اس لیے اب اس اہم قومی معاملے پر غور فرمایا جائے گا۔ یہ استحقاق بھائی جان کیسے کیسے مجروح ہوتے رہے، یہ کہانی بھی سن لیجیے۔
معزز رکن اسمبلی عطاء اللہ خان صاحب نے کے الیکٹرک کے ریجنل ہیڈ ہمایوں صغیر کو فون کیا لیکن ہمایوں صغیر نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔ اس گستاخی پر ان کا استحقاق مجروح ہو گیا۔
عطاء اللہ خان صاحب نے ہی کراچی واٹر بورڈ کے ایم ڈی کو فون کیا جو انہوں نے نہیں سنا۔ اس بے ادبی پر ایم این اے صاحب کے استحقاق نے کہا کہ میں تو اب مجروح ہو چکا ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبد المجید نیازی صاحب نے تحصیل کروڑ کے ڈی ایس پی کو ایک ’سنگین معاملہ‘ حل کرنے کا کہا جو اس بے ادب ڈی ایس پی نے حل نہیں کیا تو صاحب کا استحقاق مجروح ہو گیا۔ وہ سنگین معاملہ کیا تھا اس پر راوی خاموش ہے۔ بولے گا تو استحقاق کے مزید مجروح ہونے کا اندیشہ ہے۔
عبد المجید صاحب ہی نے ایک تفتیشی (سب انسپکٹر) کو بھی یہ سنگین معاملہ حل کرنے کو کہا اس نے بھی اسے حل نہیں کیا، لہذا استحقاق نے سرگوشی کی کہ میں تو دو مرتبہ مجروح ہو چکا ہوں۔
معزز رکن پارلیمان جناب احمد حسین ڈاہر نے کمشنر ملتان کو فون کیا جو اٹینڈ نہیں ہوا اور یوں ان کا استحقاق بھی مجروح ہو گیا۔
مرتضیٰ جاوید ستی صاحب کا استحقاق مزاج یار کی طرح بہت ہی نازک مزاج نکلا۔ ان کے حلقے میں ایک گاؤں بانڈی اے آئی خان میں سوئی گیس پہنچی تو اس کی افتتاحی تقریب میں ایس این جی پی ایل کے ایم ڈی اور ریجنل مینیجر پہنچ گئے۔ معزز رکن اسمبلی کے استحقاق نے کہا کہ لیجیے صاحب اگر آپ جیسی ہستی کے ہوتے ہوئے ایک غیر منتخب آدمی سکیم کا افتتاح کرے گا تو میں تو مجروح ہو نے لگا ہوں۔ چنانچہ ستی صاحب کے استحقاق صاحب مجروح ہو کر بیٹھ گئے۔
ستمبر 2017 میں چیئرمین سینٹ کراچی تشریف لے گئے۔ وہ اس وقت قائم مقام صدر بھی تھے۔ جب انہوں نے ایئرپورٹ پر اتر کر دیکھا تو انہیں معلوم ہوا چیف سیکریٹری، آئی جی سندھ، کمشنر کراچی اور ڈی سی ملیر سارے کام چھوڑ کر ان کے دربار میں حاضر نہیں ہوئے تو ان کا استحقاق وہیں کھڑے کھڑے مجروح ہو گیا اور اس توہین پر سینیٹ سیکرٹریٹ سے ایک عددMost Immediate نوٹس نکال کر گستاخان کو اسلام آباد طلب کر لیا گیا۔
جناب نجف سیال ساحب کا استحقاق بھی بڑا زود رنج نکلا۔ ان کے حلقے کے گاؤں دوسو آستانہ میں ایک ڈاک خانہ کھولا گیا۔ محکمہ ڈاک کے لوگ آئے اور رسمی کارروائی کر کے چلے گئے۔ استحقاق چیختا چنگھاڑتا سیال صاحب کے پاس حاضر ہوا اور کہا آپ کے ہوتے ہوئے حلقے میں ایک سرکاری ملازم کھول لے یہ تو بہت بڑی توہین اور بے ادبی ہے اور میں مجروح ہونے جا رہا ہوں چنانچہ وہ مجروح ہو گیا اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں لوگوں کی دوڑیں لگ گئیں کہ بھائی جان مجروح ہوئے بیٹھے ہیں، کچھ کیجیے۔
بلال ورک صاحب کا استحقاق تو اپنی نوعیت کا عجیب نازک مزاج نکلا۔ وہ لاہور ایئرپورٹ پر صرف اس لیے مجروح ہو گیا کہ سٹیشن مینیجر کا رویہ Indifferent تھا۔ توہین یا تضحیک پر مبنی رویہ نہ تھا، Indifferent تھا۔ گویا سٹیشن مینیجروں کو جہاں کوئی معزز رکن نظر آئے وہ ہاتھ باندھ لیں، سر جھکا لیں اور لڈیاں ڈالنا شروع کر دیں میرا پیا گھر آیا۔
میری بہن نعیمہ کشور کا استحقاق بھی بڑے غصے والا ہے۔ ان کے حلقے میں ایک ٹرانسفارمر لگا۔ پشاور الیکٹرک والوں نے وہ ٹرانسفارمر ایک ایم پی اے کو دے دیا جس نے جا کر لگوا دیا۔ نعیمہ کشور صاحب کا استحقاق مجروح ہو گیا کہ یہ ٹرانسفارمر ایم این اے کی بجائے ایم پی اے کے ذریعے کیوں لگا۔
یہ سارے وہ واقعات ہیں جو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے استحقاق کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ یہ واقعات خبر دے رہے ہیں کہ قانون سازوں کی فکری گرہ کتنی شدید ہے۔ ان کا بنیادی کام قانون سازی ہے لیکن ان کی حساسیت قانون سازی کی بجائے حلقے کو اپنے شکنجے میں رکھنے کے لوازمات کی تلاش میں رہتی ہے اور ان کے حلقہ انتخاب میں کوئی سرکاری افسر ڈاک خانہ کھول کر چلا جائے یا سوئی گیس کے دو چار کنکشن دے جائے تو ان کا استحقاق مجروح ہو جاتا ہے۔ یہ کمیٹیوں کو شکایت لگاتے ہیں فلاں افسر نے میرا فون نہیں سنا اور فلاں تفتیشی نے میرا سنگین مسئلہ حل نہیں کیا اور کمیٹی اس پر فوری نوٹس بھی لے لیتی ہے۔
اگر آپ کی فکری ترک تازی کا عالم یہ ہے اور آپ کی بالغ نظری اور بصیرت کی جملہ کہانی بس اتنی سی ہے تو آرٹیکل 6 آپ کا تحفظ کیسے کر سکتا ہے؟
یاد رکھیے آئینی موشگافیاں نہیں، یہ آپ کا اخلاقی وجود ہے جو آپ کا تحفظ کر سکتا ہے۔ آپ اپنے اخلاقی وجود سے بے نیاز ہیں تو پارلیمانی بالادستی کا سارا فسانہ پانی کا بلبلہ ہے۔