داخلی سلامتی کے لیے ایک انسدادِ دہشت گردی چارٹر ناگزیر

گذشتہ ماہ ملک کی موجودہ سکیورٹی صورتِ حال پر بلائے گئے پارلیمانی پینل کے اجلاس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اس مسئلے پر کوئی اتفاقِ رائے موجود نہیں۔

بنوں میں ایک فوجی اہلکار 21 دسمبر، 2022 کو پولیس سٹیشن کے باہر ڈیوٹی پر مامور ہے (اے ایف پی)

پاکستان میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی داخلی سلامتی پر شدید دباؤ ڈال رہی ہے اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ بگڑتی ہوئی صورتِ حال سیاسی قیادت سے ایک متحد انسدادِ دہشت گردی حکمت عملی کی متقاضی ہے۔

تاہم، گذشتہ ماہ ملک کی موجودہ سکیورٹی صورتِ حال پر بلائے گئے پارلیمانی پینل کے اجلاس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اس مسئلے پر کوئی اتفاقِ رائے موجود نہیں۔

 یہ صورت حال بلاشبہ عسکریت پسند گروہوں کے لیے تسلی بخش ہے، لیکن پاکستان کے شہریوں کے لیے باعثِ تشویش ہونی چاہیے۔

20 مارچ کو وزیر مملکت برائے داخلہ نے انکشاف کیا کہ یکم جنوری سے 16 مارچ کے درمیان شدت پسندی کے واقعات میں کم از کم 1,141 پاکستانی جان سے گئے یا زخمی ہو چکے ہیں۔

 بلوچستان اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں عسکریت پسند حملوں میں خطرناک اضافے کے بعد پاکستان کی انسداد دہشت گردی حکمت عملی پر نظرِ ثانی کی جا رہی ہے۔

 اب توجہ زیادہ مؤثر اور پیشگی انٹیلی جنس پر مبنی اقدامات کی طرف مرکوز ہو چکی ہے، یعنی ایسے طریقے جو ردعمل کے بجائے پیشگی کارروائیوں پر مبنی ہوں۔ تاہم، سیاسی اور ترقیاتی پہلوؤں کو نظر انداز کرنا عسکریت پسندی سے نمٹنے کا محض عارضی حل ہو سکتا ہے۔

حکومت نے گذشتہ سال سے انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کو منظم انداز میں اپ ڈیٹ کیا ہے۔ جون 2024 میں اسلام آباد نے وژن ’عزمِ استحکام‘ کا آغاز کیا تاکہ قومی انسداد دہشت گردی مہم کو ایک نئی توانائی دی جا سکے، خاص طور پر سفارتی ذرائع سے سرحد پار شدت پسندی کے خلاف کوششوں کو تیز کیا جا سکے۔

 لیکن اس حکمت عملی کی تجدید کے باوجود شدت پسند گروہوں کی تیزی سے بدلتی کارروائیوں پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ اسلام آباد، کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ مسلح گروہوں کو طالبان حکومت کی کھلی یا خفیہ حمایت ختم کرانے میں سفارتی سطح پر کامیاب نہیں ہو سکا، جو اس کی کوششوں میں رکاوٹ ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تجزیاتی معاون اور پابندیوں کی نگرانی کے ادارے نے جولائی 2024 میں رپورٹ کیا تھا کہ طالبان نے القاعدہ برصغیر کو اجازت دی کہ وہ ٹی ٹی پی کو تربیت اور فنڈنگ فراہم کرے تاکہ وہ ہتھیار خرید سکے۔ افغانستان میں القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے سفارتی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔

اس کے علاوہ، پاکستان میں فعال عسکریت پسند گروہوں کو سرحد پار سے آنے والی مالی اور مادی امداد کو روکنے کے لیے افغان طالبان کی مخلصانہ حمایت ضروری ہے۔

کابل کی حمایت کے بغیر ہتھیاروں اور مالی وسائل کی ترسیل کے اس نیٹ ورک کو توڑنا ناممکن ہے، جو طالبان حکومت کی سرپرستی میں چل رہا ہے۔

11 مارچ کو جعفر ایکسپریس ٹرین ہائی جیکنگ اور بلوچستان میں مسلح افواج کی ریسکیو کارروائی کے بعد حکومت نے ایک ان کیمرا سکیورٹی اجلاس بلایا تاکہ انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر دوبارہ غور کیا جا سکے۔

 قومی سلامتی پر پارلیمانی کمیٹی (پی سی این ایس) کے اس اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور آئی ایس آئی چیف جنرل عاصم ملک سمیت اعلیٰ سول و عسکری قیادت شریک ہوئی، لیکن پارلیمنٹ میں موجود بڑی اپوزیشن جماعت نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی سی این ایس نے شدت پسند نیٹ ورکس کو توڑنے، ان کی لاجسٹک معاونت ختم کرنے اور دہشت گردی اور جرائم کے درمیان تعلق کو ختم کرنے کے لیے عسکری اقدامات پر زور دیا۔

ان اقدامات پر عمل درآمد کا انحصار صوبائی حکومتوں کی عملی شرکت پر ہے۔

اگرچہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نے اجلاس میں شرکت کی، لیکن وہاں برسرِ اقتدار جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے ملک میں کسی بھی نئی فوجی کارروائی کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا۔

 یہ سیاسی اختلافات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کے پی اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاقِ رائے پر مبنی حکمت عملی تشکیل دینے میں رکاوٹیں موجود ہیں۔

تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ قومی سلامتی کو یقینی بنانے میں ان کا کردار کلیدی ہے۔ حکومتِ شہباز کی صوبائی حکومتوں کو انسدادِ دہشت گردی مہم میں شامل کرنے کی کوشش قابلِ تحسین ہے۔ مزید یہ کہ ہر سیاسی رہنما بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی نازک صورت حال پر فوری قومی اتفاقِ رائے اور غیر معمولی توجہ دینے کی ضرورت پر زور دے رہا ہے، لیکن باہمی اختلافات کے باعث کوئی عملی پیش رفت نہیں ہو پا رہی۔

ان کے قول و فعل میں تضاد کی بنیادی وجہ ملک میں سیاسی تقسیم ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا ان کیمرا سکیورٹی اجلاس کا بائیکاٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ تقسیم موجود ہے۔

ملک میں سیاسی تقسیم اور سیاسی قیادت کے درمیان عسکری اور غیر عسکری انسداد دہشت گردی اقدامات پر اختلافِ رائے وہ سنگین مسائل ہیں جو دہشت گردی کے مکمل خاتمے میں رکاوٹ ہیں۔

سیاسی قوتوں کے درمیان اختلافات نے ملک میں انتہا پسندی، عسکریت پسندی، علیحدگی پسندی اور شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے قلیل مدتی اور ناکافی پالیسیوں کو جنم دیا ہے۔ موجودہ سنگین صورت حال سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک متفقہ انسدادِ دہشت گردی چارٹر کا تقاضا کرتی ہے، جو کثیر الجہتی، قلیل مدتی اور طویل مدتی اقدامات پر مبنی ہو — چاہے وہ عسکری نوعیت کے ہوں یا سیاسی و سماجی۔

گذشتہ ماہ آرمی چیف نے کہا تھا: ’پائیدار استحکام کے لیے ضروری ہے کہ قومی طاقت کے تمام عناصر ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں۔‘

بے شک، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاقِ رائے پیدا کرے تاکہ انسداد دہشت گردی کے ایک مؤثر چارٹر کی تشکیل ہو سکے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ پارلیمان کے اندر اور باہر اپوزیشن جماعتوں، مذہبی، قوم پرست و لسانی گروہوں اور سول سوسائٹی تنظیموں سے لچکدار رویہ اختیار کرتے ہوئے رابطے کرے تاکہ ایک قابلِ عمل انسداد دہشت گردی چارٹر ترتیب دیا جا سکے۔

ڈاکٹر ظفر نواز جسپال اسلام آباد میں مقیم تجزیہ کار ہیں اور قائداعظم یونیورسٹی کے سکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں پروفیسر ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ تحریر اس سے قبل عرب نیوز پاکستان میں شائع ہو چکی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر