وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آج ہونے والی پریس کانفرنس میں کہا کہ 'سمجھوتہ ایکسپریس کے فیصلے نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔'
مرکزی ملزم سوامی آسیم آنند نے اقبال جرم بھی کر رکھا تھا اس کے باوجود تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا۔ بھارت پاکستان پر بلا تحقیق الزام لگا دیتا ہے۔ ہمیں پلوامہ میں 44 جانوں کے ضیاع کا افسوس ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ، 'اتنے ہی پاکستانی سمجھوتہ ایکسپریس حملے میں شہید ہوئے تھے۔ لیکن ان 44 شہدا کو انصاف نہیں ملا۔'
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے گذشتہ روز اس فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا: ’ہمیں فیصلے کی کاپی باضابطہ طور پر موصول نہیں ہوئی لیکن میڈیا رپورٹس پر فیصلے سے متعلق دیکھا ہے۔‘
’ہندوستان کی طرف سے ایسا فیصلہ شدت پسندانہ سوچ کی عکاسی ہے کہ 68 افراد کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم سوامی آسیم آنند اور دیگر ملزمان لوکیش شرما، سندیپ ڈانگے اور رما چندر کلسانگرا کو ہریانہ کی انسداد دہشت گردی عدالت نے رہا کر دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل آسیم آنند کو اجمیر شریف حملہ کیس میں بھی رہا کیا گیا تھا۔
بھارتی ہائی کمشنر کی دفتر خارجہ طلبی
دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ نے سمجھوتا ایکسپریس کیس میں ملوث ملزمان کی رہائی کے معاملے پر بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو دفتر خارجہ طلب کیا اور پاکستان کا باضابطہ احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے تحریری مراسلہ بھارتی ہائی کمشنر کے حوالے کیا۔
مراسلے میں موقف اپنایا گیا کہ بھارتی غفلت کے باعث ملزمان رہا ہوئے۔ بھارت پاکستان پر دہشتگردی کے الزام لگاتا ہے اور اپنے ملک میں دہشتگردی کا برملا اعتراف کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے.
اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے کہا کہ فیصلہ بھارتی عدالتی نظام اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’بھارت نے بارہا پاکستانی 13 گواہوں کو سمن جاری کیے لیکن دفتر خارجہ نے سمن گواہوں تک نہیں پہنچائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سمجھوتہ ایکسپریس کا واقعہ کب پیش آیا؟
18فروری 2007 کو سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے سے 68 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 42 پاکستانی تھے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس دلی سے انڈیا کے آخری سٹیشن اٹاری کی طرف بڑھ رہی تھی کہ نصف شب کے قریب ہریانہ کے شہر پانی پت کے دیوانی گاؤں کے نزدیک اس کے ایک کمپارٹمنٹ میں بم دھماکہ ہوا جس سے دو بوگیاں آگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔
دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے نے عدالت میں بتایا تھا کہ دھماکے میں پاکستانی مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا۔
اس مقدمے میں مجموعی طور پر آٹھ ملزمان تھے۔
سمجھوتہ ایکپریس کے مقدمے میں 224 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ عدالت نے 13 پاکستانی گواہوں کو بھی پاکستان ہائی کمیشن کے ذریعے کئی بار سمن بھیجا لیکن بھارت کی جانب سے ویزہ ہی جاری نہیں کیا گیا۔
اس طویل مقدمے میں تقریباً 300 گواہ تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دو برس میں اس مقدمے میں 30 سے زیادہ گواہ منحرف ہوئے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق بھارتی تحقیقاتی ایجنسی نے ملزمان کو نامزد کر کے فرد جرم تو عائد کر دی لیکن استغاثہ الزامات ثابت نہیں کر سکی جس کی بنا پر ملزمان کو بری کیا گیا ہے۔
آسیم آنند کون ہے؟
آسیم آنند کا تعلق شدت پند تنظیم ابیھنو بھارت سے ہے، سوامی پر مکہ مسجد اور اجمیردرگاہ پر حملے سمیت دیگر کارروائیوں کا بھی الزام تھا۔
سوامی کو 2011 میں اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے اور مکہ مسجد حیدر آباد میں دھماکے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
سوامی نے بھارتی عدالت کے مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف کیا کہ دسمبر 2006 میں مالے گاؤں کی ایک مسجد پر حملہ کرانے میں وہ پیش پیش تھا، جبکہ بم حملہ کرنے والا سنیل جوشی پراسرار طور پر مارا گیا۔
سوامی نے 2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس، اجمیرشریف اور حیدر آباد میں مسلمانوں پر حملوں کا بھی اعتراف کیا۔
سوامی نے اعتراف کیا کہ ہندو انتہا پسند جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ کے کئی رہنما سمجھوتہ ایکسپریس، مساجد پر دھماکوں اور مسلمانوں پر حملوں کی منصوبہ بندی، مالی معاونت اور تربیت اور بھارت میں دہشت گردی کی دیگر مختلف کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔
بھارتی تحقیقاتی ایجنسیوں نے دہشت گردی کی ان وارداتوں کے ٹھوس ثبوت حاصل کر کے کئی اہم گواہوں کے بیانات بھی قلمبند کیے تھے۔