اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس فی الحال نہیں لگا رہے: حکومت

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے ایجنڈے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا معاملہ شامل نہیں ہے۔

اسلام آباد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (مونا خان/انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ میں ججز سنیارٹی کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی درخواست کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ ’جوڈیشل کمیشن کے ایجنڈے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا معاملہ شامل نہیں اور اس عہدے پر فی الحال تقرری نہیں ہو رہی۔‘

جمعرات کو جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے ہائی کورٹس کے ججزکی سنیارٹی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کی درخواست پر سماعت کی۔ 

بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس نعیم افغان جسٹس شاہد بلال جسٹس صلاح الدین پنور اور جسٹس شکیل احمد شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل پاکستان منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ’مستقل چیف جسٹس کی تقرری کے لیے 14 روز قبل کمیشن کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ آج کے اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی کا معاملہ نہیں ہے اور دو مئی کے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں بھی پشاور اور بلوچستان کے چیف جسٹسز کا معاملہ زیر غور ہو گا۔

’اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ ججز کی سنیارٹی اور ٹرانسفر کا معاملہ سب کی رضامندی سے ہوا ہے، یہ معاملہ متنازع نہیں ہے،

جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’اگر متنازعہ معاملہ نہیں تو آپ کو آمادگی کے بیانات جمع کرانے چاہیے۔‘

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ’ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ شروع کہاں سے ہوا۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دو ججوں کا کیس میں وکیل نہ کرنے کا فیصلہ

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کے تینوں ججوں کو نوٹس گیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کا وکیل کون ہے؟‘

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ’مجھے تینوں ججوں کی طرف سے پیغام ملا ہے، جسٹس سرفراز ڈوگر ، جسٹس خادم سومرو اور جسٹس محمد آصف وکیل نہیں کر رہے۔ تینوں ججوں نے کہا ہے آئینی بینچ کا فیصلہ انھیں قبول ہو گا۔‘

گذشتہ سماعت  

اس کیس میں وفاقی حکومت نے پہلے ہی تحریری جواب جمع کروا رکھا ہے، جس میں وفاقی حکومت نے درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا بھی کر رکھی ہے، جب کہ گذشتہ سماعت پر عدالت نے تینوں ججوں، اٹارنی جنرل سمیت چاروں ہائی کورٹس کے رجسٹرار آفسز کو نوٹس جاری کیے تھے۔

عدالت نے ججز کو کام کرنے سے روکنے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی نئی سینارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد کر دی تھی۔

عدالت نے جوڈیشل کمیشن کو ہائیکورٹس کے مستقل چیف جسٹس صاحبان تعینات کرنے سے روکنے کی استدعا بھی مسترد کر رکھی ہے، جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے درخواست واپس لے لی ہے۔

خیبرپختواہ حکومت کا اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کے مؤقف کے دفاع کا فیصلہ 

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’کیا کسی صوبائی حکومت نے بھی کوئی تحریری جواب جمع کرایا ہے۔‘

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی آئینی پٹیشن کو سپورٹ کرتے ہیں۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ ’کیا آپ نے کوئی جواب بھی جمع کرایا۔‘ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے بتایا کہ ’ہم نے ابھی جواب جمع کرانا ہے۔‘

آئینی بینچ نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے علاوہ چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس کر رکھے ہیں۔

بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آج صرف یہ دیکھا کہ تمام فریقین کو نوٹس موصول ہو گئے، ہم فیصلہ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لیں گے، ہم فریقین کے وکلا کو سننا چاہتے ہیں۔

’ہم منگل سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گے۔‘

عدالت نے کیس کی سماعت 22 اپریل تک ملتوی کر دی۔

ججز کی سنیارٹی کے خلاف دائر درخواستوں کا متن

ججز سنیارٹی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں سمیت کل سات درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر ہوئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس محسن اختر کیانی سمیت پانچ ججز نے سنیارٹی کے خلاف دائر کردہ ریپریزنٹیشن مسترد ہونے کے بعد وکیل منیراے ملک، بیرسٹر صلاح الدین کے ذریعے آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست دائر کی۔

درخواست گزارججز میں جسٹس محسن کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابرستار اور جسٹس رفعت امتیاز اور شامل ہیں۔

درخواست میں وفاقی حکومت، ٹرانسفر کیے گئے ججوں اور مختلف ہائی کورٹس کو فریق بنایا گیا ہے، جبکہ درخواست کے ساتھ حکم امتناعی کی علیحدہ درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ قرار کے صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججوں کے تبادلے کے لامحدود اختیارات نہیں، مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ فیصلہ ہونے تک جسٹس سرفراز ڈوگر سمیت تین ججز کو کام سے روکا جائے۔ درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ صدر کے اختیارات کو جوڈیشل کمیشن کی منظوری سے مشروط کیا جائے۔

دیگر درخواست گزاروں میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار، کراچی ہائی کورٹ بار، کراچی بار ایسوسی ایشن، لاہور ہائی کورٹ بار، لاہور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اور بانی پی ٹی آئی عمران خان شامل ہیں۔

ججز سنیارٹی کے معاملہ پر اسلام ہائی کورٹ میں دائر ریپریزینٹیشن پر فیصلہ کیا تھا؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے بطور سپریم کورٹ جج حلف سے قبل پانچ ججوں کی ریپریزنٹیشن رواں برس فروری میں مسترد کرتے ہوئے آٹھ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا تھا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ’آئین ججز کی تعیناتی اور تبادلے میں فرق واضح کرتا ہے، تعیناتی اور تبادلے کو ایک ہی معنی نہیں دیے جا سکتے، ہائی کورٹ کا جج تعینات ہونے پر حلف اٹھا کر آفس سنبھالتا ہے۔ ہائی کورٹ کے جج کے تبادلے پر دوبارہ حلف اٹھانے سے متعلق پروسیجر خاموش ہے۔ یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ جج تبادلے کے بعد ہائی کورٹ میں آفس سنبھالتے وقت دوبارہ حلف لے۔ اگر ٹرانسفر ہونے والے جج کا دوبارہ حلف ضروری ہوتا تو آئین میں اس کا ذکر کیا جاتا۔‘

فیصلے کے مطابق ’لاہور ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہو کر آنے والے جسٹس سرفراز ڈوگر نے آٹھ جون 2015 کو بطور لاہور ہائی کورٹ جج حلف اٹھایا، جسٹس خادم حسین سومرو نے 14 اپریل 2023 کو سندھ ہائی کورٹ جبکہ جسٹس محمد آصف نے 20 جنوری 2025 کو بلوچستان ہائی کورٹ کے جج کا حلف اٹھایا۔ ان تینوں ججوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ رواں برس یکم فروری کو ٹرانسفر کیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت صدر نے ججز کو چیف جسٹس پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے ٹرانسفر کیا، تینوں ججز ٹرانسفر سے قبل حلف اٹھانے کے بعد اپنی متعلقہ ہائی کورٹس میں خدمات سر انجام دے رہے تھے لہذا انہیں دوبارہ حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان