افغان طالبان نے رواں ماہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہونے والے افغان اجتماع کے بارے میں وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نہ تو مذاکرات ہیں اور نہ ہی کوئی اجلاس بلکہ شرکا کے لیے محض اپنے خیالات کے اظہار کا ایک موقع ہے۔
تحریک طالبان افغانستان کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق ’اس اجتماع کو انٹرا افغان کانفرنس یعنی افغانوں کے درمیان ایک کانفرنس کا نام دیا گیا ہے، جہاں شرکا محض اپنے خیالات اور پالیسیوں کا اظہار کرسکیں گے اور اپنا موقف دوسروں کے سامنے رکھیں گے، تاہم یہ کانفرنس نہ تو مذاکرات ہیں اور نہ ہی ملاقات۔‘
دوسری جانب افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے کابل حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک وفد دوحہ بھیجنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
انہوں نے اردن میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’اس وفد کا مقصد افغان عوام کی ایک مشترکہ پوزیشن واضح کرنا ہے۔‘
افغان صدر اشرف غنی کے ایلچی محمد عمر داؤد زئی کا بھی کہنا تھا کہ اس وفد کا مقصد صرف طالبان کے ساتھ تبادلہ خیال ہوگا اور ضروری نہیں کہ اس کے اراکین باضابطہ مذاکراتی ٹیم کے رکن ہوں۔
طالبان نے افغان حکومت کی شمولیت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کابل انتظامیہ کا کوئی اہلکار اس کے نمائندے کے طور پر پیش نہیں ہوگا۔ بیان کے مطابق: ’ماسکو کانفرنس کی طرح کوئی بھی شخص جو کابل انتظامیہ کا حصہ ہے اور اس کانفرنس میں شریک ہے وہ ذاتی حیثیت میں شریک ہوگا اور ذاتی خیالات کا اظہار کرے گا۔‘
اسلامی تحریک کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کانفرنس کا مقصد افغانستان میں امن کا قیام اور فریقین کے خیالات کا تبادلہ ہے لہذا کوئی ناپسندیدہ شخص یا جس کے بارے میں خیال ہے کہ اسے یہاں نہیں ہونا چاہیے، انہیں طالبان نے شرکت کے لیے منتخب نہیں کیا ہے۔
قطر میں اس اجتماع کے لیے دنیا بھر سے 200 کے لگ بھگ افغان باشندوں کو مدعو کیا جا رہا ہے۔
اس اجتماع میں شرکت کے دعوت نامے قطر حکومت بھیج رہی ہے لیکن شرکا کا انتخاب طالبان قیادت کے مشورے سے کیا جا رہا ہے۔ منتظمین کو یقین ہے کہ اس بات چیت سے افغان قوم میں اعتماد پیدا ہوگا۔
اُدھر دوحہ میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات اس کانفرنس کے علاوہ بھی جاری رہنے کے امکانات ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی صدر کے افغانستان کے حوالے سے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد آج کل کابل کے دورے پر ہیں۔
جب سے افغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کیے ہیں، اسے کئی مرتبہ اس قسم کی وضاحتیں جاری کرنے کی ضرورت پیش آچکی ہے۔ مبصرین کے خیال میں یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ اس شدت پسند تحریک کے اندر اور باہر اس پر مذاکرات کے حوالے سے کتنا دباؤ ہے۔