ہوش سنبھالنے کے بعد میری پیرس میں واقع تاریخی گرجا گھر نوٹراڈام کے بارے میں پہلی یاد اُس وقت کی ہے جب میری عمردس سال سے کم تھی۔
میں نے چند دوستوں اور سپروائزروں کے ساتھ فرانسیسی اورگوتھ فن تعمیرکے شاہکارکی سیرکی تھی۔ اُس وقت میرے ہاتھ میں ذہنی آزمائش کے سوالات والا کاغذ تھا اور ہم گرجا گھرکی سیرکے دوران سوالات کے جواب لکھ رہے تھے۔
مجھے ٹھیک سے یا دنہیں کہ آیا یہ دورہ سکول کی جانب سے کرایا گیا یا تفریحی تھا یا پھرانجیل کے مطالعے کے سلسلے کی کڑی تھی (فرانس میں چونکہ مذہب اورریاست الگ الگ ہیں لہذا دوسری بات زیادہ ممکن لگتی ہے)۔
سوالنامے میں ایک سوال کچھ اس طرح کا تھا۔ ایک گارگوئل پرنالہ پوکیمون کارٹون کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کون سا؟
بلاشبہ مجھے دس سال کی عمر سے کافی پہلے اس گرجا گھرکاعلم تھا کیونکہ امریکی فلم ساز ادارے والٹ ڈزنی کی فلم نوٹرا ڈام کا کبڑا اس وقت ریلیزہوئی جب میری عمرپانچ برس تھی۔
فلم میں میری نسل کواس کے دوکرداروں کوازی موڈو اورایزمیرالڈا کے قصے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ فلم نے ہماری سوچ کا رخ مصنف وکٹرہیوگوکی طرف موڑا دیا تھا۔ اگرچہ ان کا ناول ہائی سکول تک ہماری زندگیوں میں بڑا کردارادا نہیں کرے گا۔
لیکن اس دن جب ذہنی آزمائش کا مقابلہ ہورہا تھا، پوکیمون کارٹون اورعمارت کی چھت کے کنارے پربنے گارگوئل پرنالے کے دن—حقیقی طورپرمیں نے پہلی بار نوٹرا ڈام کی عمارت پرتوجہ دی تھی۔ پہلی بارمیں نے اپنی سوچ کوئی آٹھ صدیوں سے وہاں موجود پتھروں، رنگین شیشے سے آراستہ نازک کھڑکیوں اورگرجا گھرکے دو سامنے والے میناروں پرمرکوزکی تھی جوپیرس کے افق کا نہ مٹنے والا حصہ ہیں۔
آج وہ لمحہ میرے دماغ میں اُس وقت ابھرآیا جب میرے ڈیسک پروہ ویڈیوزآئیں جن میں وہی عمارت آگ کے شعلوں میں لپٹی ہوئی تھی اور پیر کی شام کو لگی آگ نے جسے تباہ کردیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرانسیسی عوام کی نفسیات میں اس گرجا گھرکی ممتازحیثیت کوبڑھا کربیان کرنا مشکل ہے۔ میری نسل ( اس سے میری مراد وہ لوگ جو1990 کے اوائل میں پیدا ہوئے) 1998 میں ریلیزہونے والے موسیقی سے آراستہ ڈارمے پیرس کا نوٹرا ڈام کویاد رکھے گی۔
یہ ڈرامہ فرانسیسی مصنف وکٹرہیوگوکے ناول نوٹراڈام کا کبڑا سے ماخوذ تھا۔ یہ ڈرامہ ایک اور تصنیف Les Miserable (حالات کے مارے لوگ) کے اٹھارہ برس بعد منظرعام پرآیا تھا۔ اس ڈرامے نے Les Miserable کی اہمیت کم ازکم ہماری نسل کے نوجوانوں کے لیے جلد ہی کم کردی تھی۔
ڈرامے کا ایک مقبول ترین گیت گرجا گھروں کا دور ہے۔ جب میں چھوٹی تھی تو اس گیت نے مجھے ہنسا دیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسے گانا بہت مشکل ہے۔ دوسرا اس کی ایک لائن میں پیشگوئی ہے کہ دنیا 2000 میں تباہ ہوجائے گی۔ اگلے ہزارسالہ دور کے اتنے قریب یہ بڑا وقتی لگتا ہے۔
گیت، ناول اورنظمیں تھیں۔ وکٹرہیوگوکے ناول نوٹرا ڈام کا کبڑا سے جملہ تھا: ’اس عظیم یادگارکا ہرحصہ اورپتھرنہ صرف اس ملک کی تاریخ بلکہ سائنس اورفن کا صفحہ ہے۔ گرجے یہ سب خیالات اس عمارت کی دین تھے‘۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمیشہ وہاں اورہمیشہ رہے گی۔
آگ لگنے کی خبرکے بعد ٹوئیٹرپرفرانسیسی عوام کے پیغامات کا سیلاب آگیا۔ ان پیغامات میں مایوسی، افسوس اورسب سے بڑھ کرناامیدی کا اظہارکیاگیا۔ بعض نے نوٹرا ڈام کوخاندان قراردیا ہے۔ کچھ چاہنے والوں نے مجھے ہمدردی کا پیغام بھیجا گویا میرے کسی پیارے کی موت ہوگئی ہو۔
سب دکھی ہیں۔ یہ ٹھیک ٹھیک بتایا مشکل ہے کہ ہم کس بات پرغمگین ہیں؟ ایک عمارت لیے؟ عمارت کے آئیڈیے کے لیے؟ صدیوں کی تاریخ کے لیے؟ آگ کی ویڈیوکلپ میں گرتے ہوئے ایک ایسے مخروطی مینارکے لیے جس کی جگہ نیا نہیں بنایا جاسکتا یا پھرمکمل طورپرکسی دوسری شے کے لیے؟
کسی کوتوقع نہیں تھی کہ اسے نوٹراڈام کا غم منانا پڑے گا۔ گرجا گھرہمارے سامنے درست حالت میں موجود تھا۔ توقع کی جارہی تھی کہ ہمیشہ قائم رہے گا اوراگرنہیں توکم ازکم دنیا کے خاتمے تک اس کا وجود برقراررہے گا۔
جب میں چھوٹی تھی تب نوٹراڈام اپنی جگہ موجود تھا۔ میں اس کے میناروں میں تصوراتی مخلوق تلاش کرتی تھیں۔ عمربڑھی توتب بھی نوٹراڈام قائم تھا۔ اس وقت میں گرجا گھرکی دیواروں سے چند میٹردورامتحانات کی تیاری کرانے والے ایک سینٹرمیں پڑھا کرتی تھی۔
میں نے گرجا گھرمیں ہونے والی ایک سروس میں بطورنوجوان رپورٹرشرکت کی تھی۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ اپنی تاریخی حیثیت کے ساتھ ساتھ کیا اب نوٹراڈام عبادت گاہ ہے؟
جب میں نیویارک کے رہائشی اپنے خاوند کوآبائی قصبے لے کرگئی گرجا گھرتب بھی اپنی جگہ موجود تھا۔ جب میں نے پیرس چھوڑا تب بھی گرجا گھراپنی جگہ تھا۔ میں جب بھی واپس آئی اسے اپنے مقام پرپایا۔ جب میں نے اسے آخری باردیکھا وہ تب بھی وہیں تھا لیکن اب میں اپنے آپ کوہلکی سی سزا دینا چاہتی ہوں کہ میں نے اسے کافی عرصے سے نہیں دیکھا۔ میں رکی نہیں کہ اسے اپنے اندرسمولوں۔ میں نے اسے اتنا نہیں سراہا جتنا سراہنا چاہیے تھا اوراب میرے پاس وقت نہیں بچا۔
ہم اسے رخصت کرنے کے لیے تیارنہیں تھے۔ نوٹراڈام ہوا، سمندراورریاضی کی طرح تھا۔ ناقابل مواخذہ اورآفاقی ایسی اشیا میں سے ایک جوہمارے خیال میں پہلے سے اپنی جگہ پرتھیں۔
ہم غلطی پرتھے۔ الوداع کہنا اورایک تکلیف دہ الوداع — یورپی باشندوں کو ایک اوردکھ پہنچانے والا وارمحسوس ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں جب ہمارے خیال میں بہت سارے معاملات یقینی طورپرہمارے ہاتھوں سے پھسلنا شروع ہوگئے ہیں۔