مجھے اس آرٹ گیلری میں لگی ان تصویروں میں زیادہ دلچسپی محسوس ہوئی جو مجھے میرے بچپن میں لے گئیں۔
آپ سبھی نے بچپن کے کھیل تو کھیلے ہی ہوں گے، لیکن میرے تجربات ذرا ہٹ کر تھے۔
ماریہ جو ان شاہکاروں کی خالق ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن میں یہ تمام کام کر چکی ہیں اور انہیں اکثر یاد کرکے ان کے اندر کا بچہ آج بھی چہک اٹھتا ہے۔
ماریہ ان تین ترقی پسند خواتین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے گذشتہ ہفتے اپنے تخلیقی کام کی نمائش کی۔
ماریہ کی دوست حسن آرا، جن کا تعلق کشمیر کی وادیوں سے ہے، وہ سن سکتی ہیں اور نہ ہی بول سکتی ہیں لیکن ان کا کام دیکھنے والوں نے یہی کہا کہ ان کے بنائے نقش ان کی میٹھی یادوں، محسوسات اور تجربات کی خوب ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کا برش وہ آلہ ہے جس سے وہ اپنے احساسات کو زبان دیتی ہیں۔
ایک انتہائی دردناک نقش کو اشاروں سے سمجھاتے ہوئے حسن آرا کا کہنا تھا کہ 'یہ تصویر میرے درد کی ترجمانی کرتی ہے۔'
اس تصویر میں حسن آرا نے ایک کھوپڑی بنائی، جس کے سر میں زنجیر سے جکڑا ایک کانٹے دار گولا، جس کو میں کرونا وائرس نما چیز سمجھا تھا، مگر وہ تھے بہرحال کانٹے ہی، جس کی چبھن حسن آرا کو آج بھی محسوس ہوتی ہے۔
حسن آرا کا کرونا وائرس کے دنوں میں ہی دماغ کا آپریشن ہوا، جس کا درد وہ آج بھی محسوس کرتی ہیں۔ اس درد کو انہوں نے نقش میں اس طرح اتارا کہ اس تصویر کے سامنے کھڑا ہر شخص اس کو محسوس کرسکتا تھا۔
باتوں باتوں میں سمجھ ہی نہیں آئی کہ کس لمحے دیوار پر لگے نقوش ہمیں 2016 کے شام میں لے گئے۔ آپ سبھی نے شام سے آئی وہ تصویر تو دیکھی ہوگی جس میں ایک بچہ بم حملے میں شدید زخمی ایمبولینس کی گاڑی میں کرسی پر بیٹھا اپنا حال خود بتا رہا ہے کہ اس پر کیا بیتی۔
ماریہ نے اس تصویر کا استعمال کرکے اس میں شامیوں کے درد کو مزید بھرا اور بتانے کی کوشش کی کہ ہم انسان ہیں اور ہم سبھی کو درد ہوتا ہے۔
پھر حال ہی میں سیاہ فام تحریک پر بھی انہوں نے ایک بچے کی تصویر اس انداز میں بنائی کہ وہ پریشان ہے، شاید وہ ان تضحیک آمیز رویوں کے درمیان اپنی شناخت کھو بیٹھا ہے۔ ماریہ نے اس تصویر کے گرد ان تمام اخباروں کی سرخیوں کا بھی استعمال کیا جن سے امریکہ میں نسل پرستی اور متعصب رویوں کا دنیا کو پتہ چلتا ہے۔
ماریہ کا کہنا ہے کہ ان کا کچھ وقت امریکہ میں گزرا ہے اور وہ وہاں سیاہ فاموں اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی رویوں کو بہت قریب سے دیکھ چکی ہیں۔ یہی نہیں امریکہ میں تمام اقلیتیں شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہیں۔جب حسن آرا سے پوچھا گیا کہ آپ معاشرے میں خواتین کے لیے رول ماڈل بن کر کیسا محسوس کرتی ہیں تو ان کا کسی سوچ میں الجھا ہوا چہرہ کچھ دیر کے لیے روشن ہوا اور شکریہ کے ساتھ کہنے لگیں کہ 'مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے۔'
'ہم ترقی پسند خواتین مسائل میں گھری معاشرے کی تمام خواتین کے لیے روشنی کی کرن بن رہی ہیں تو میرے لیے یہ بہت خوشی کی بات ہے۔'
ہم خواتین کے لیے امید سے متعلق گفتگو اسی گیلری میں کھڑے ہوئے کر رہے تھے جہاں دیوار پر لگے مختلف نقوش میں ایک ہی طرح کی خواتین نے مختلف رنگوں کے پھول پتیوں سے اپنے سروں کو ناک تک ڈھانپ رکھا تھا کہ آنکھیں چھپ رہی تھیں اور صرف ہونٹ نظر آرہے تھے۔خدیجہ کا کہنا تھا کہ 'اس گیلری میں لگی تصاویر میں ہم سب کی محنت شامل ہے اور ہم ان خواتین کے حلیے سے خواتین کی مرضی کی ضرورت کو اجاگر کرنا چاہ رہے ہیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'معاشرہ بھی مختلف رنگوں کا مجموعہ ہے تو خواتین اس میں خود کو مظلوم اور بے رنگ کیوں پائیں؟ ہم معاشرے کا اکثریتی حصہ ہیں اور ہمیں اپنی جگہ بنانے کے لیے کسی کی اجازت نہیں بلکہ اپنی حراست سے رہائی کی ضرورت ہے۔'
خدیجہ نے اپنے اس کام کا تعارف بھی کروایا جو انہوں نے کرونا کے دنوں میں کیا اور اس میں ذہنی دباؤ، اکیلا پن، مایوسی، گھبراہٹ اور خوف کے عوامل شامل تھے۔
نمائش کے مرکزی ہال میں لگی ایک تصویر، جس میں ایک شخص روسی ٹوپی پہنے ایک بڑی روایتی مسجد میں کھڑا رب کے حضور دعا کررہا ہے، کو دکھایا گیا۔
اس سے متعلق اس نمائش کے منتظم عبدالرحمٰن نے بتایا کہ یہ کرونا وائرس کے دوران خدا کے تصور پر سوالات اور بحث کے جنم لینے پر نقش کی گئی ہے۔
آخری تصویر جو ماریہ نے بچوں سے جنسی تشدد کے حوالے سے بنائی تھی، اس میں بچوں کی نظم میں گانے کے تانتوں کے استعمال سے جس تخلیقی طور پر اس نقش کو تخلیق کیا گیا وہ میرے لیے حیران کن تھا۔ یہ تصویر دیکھنے کے بعد وہاں موجود تمام ہی لوگوں پر ایک سکوت چھا گیا۔