پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جاری عالمی ثقافتی میلے میں فلسطین کے مغربی کنارے کے جنین کیمپ سے آئے فن کاروں نے ایک تھیٹر پیش کیا، جس کا نام تھا ’میں یہاں ہوں۔‘
پاکستان آرٹس کونسل کے زیر اہتمام یہ میلہ ایک ماہ سے جاری ہے اور اس میں 40 سے زیادہ ممالک کے فنکار اپنا فن پیش کر چکے ہیں۔
فلسطینی گروپ کا یہ تھیٹر سٹیج پر تو ایک ہی فرد کا تھا، البتہ یہ طائفہ تین افراد پر مشتمل ہے۔
گذشتہ ایک برس سے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران مغربی کنارے سے بھی تشدد کی خبریں آ رہی ہیں اور فلسطینی وہاں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
ایسے میں جنین سے تھیٹر گروپ کا پاکستان آنا اور اپنی کہانی پیش کرنا بہت اہم ہے۔
طائفے میں شریک احمد طوباشی کا تعلق جنین کیمپ سے ہے اور یہ تھیٹر ان کی زندگی کی کہانی ہے۔
اس تھیٹر میں انہوں نے فلسطینیوں کی زندگی کے مخفی پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح ہیں، وہ خوش ہونا چاہتے ہیں، محبت کرنا چاہتے ہیں اور زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احمد کو جنین کے کیمپ سے کراچی پہنچنے میں چار دن لگے۔ وہ مغربی کنارے سے پہلے اردن اور پھر وہاں سے کراچی آئے۔
اس دوران انہیں کئی چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑا۔ سرحد کے پہرے داروں کے سوالات کے جوابات دینا پڑے اور کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
احمد نے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اسرائیلی قبضے کے خلاف ہر طرح سے مزاحمت کی جائے، اس لیے وہ ثقافتی مزاحمت کو بھی بہت اہم سمجھتے ہیں اور فلسطینی ثقافت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ بھرپور طریقے سے مزاحمت کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا فلسطینیوں کو صرف ہیرو کی طرح دیکھتی ہے جبکہ وہ بھی عام لوگ بھی ہیں اور عام سی زندگی جینا چاہتے ہیں، مگر مغرب ان سے یہ حق چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان آکر بہت خوش ہیں اور افسوس ہے کہ وہ پہلے یہاں کیوں نہیں آئے۔ ’پاکستان کے لوگ بہت ملنسار اور خوش اخلاق ہیں۔‘