کیا عمران خان خود بھی یونس ایمرے دیکھ رہے ہیں؟

عمران خان کے طرز عمل اور طرز سیاست میں اور تحریک انصاف کے سیاسی بیانیے میں کہیں کوئی ایسی جھلک پائی جاتی ہے جو خبر دے کہ وہ یونس ایمرے کی فکر سے آگہی رکھتے ہیں؟

عمران خان بار ہا کہہ چکے کہ لیڈر کو مثال بننا چاہیے۔ (اے ایف پی فائل)

عمران خان نے لوگوں کو یونس ایمرے دیکھنے کا مشورہ دیا ہے، شاید وہ چاہتے ہیں عوام تصوف اور روحانیت سے فیض یاب ہوں۔ سوال یہ ہے کیا وہ خود بھی یہ ڈراما دیکھ رہے ہیں اور کیا یہ ڈراما ان کے مزاج اور طرز سیاست کی تہذیب کر سکے گا؟

یہ کالم مصنف کی آواز میں سننے کے لیے کلک کریں

 

یونس ایمرے 13ویں صدی میں پیدا ہونے والے ترک صوفی شاعر تھے جنہیں محبت اور انسان دوستی کا سفیر سمجھا جاتا ہے۔ اپنی فکر سے انہوں نے ترک سماج کی تہذیب کی اور اس پر گہرے نقوش چھوڑے۔ کیا عمران خان کو کچھ خبر ہے یونس ایمرے کی فکر کیا ہے اور کیا کسی بھی سطح پر یہ فکر ان کی افتاد طبع اور انداز سیاست پر اثر انداز ہو پائی ہے؟

روایت یہ ہے کہ تصوف کی تین منازل ہیں۔ طہارت، کشف اور وصال۔ یونس ایمرے کا کہنا ہے کوئی بھی شخص اس وقت تک وصال یعنی اللہ سے قربت کی منزل کو نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اپنی انا کے خول کو توڑ نہ پھینکے۔ اگر انا کا بت موجود ہے تو بھلے کوئی ہاتھ میں تسبیح پکڑ لے، نماز پڑھیں اور ریاست مدینہ سے وابستگی کے اعلان کرتا پھرے، وہ مراد نہیں پا سکتا۔ مراد پانی ہے تو نرگسیت اور انا کو ختم کرنا ہو گا۔

عمران خان کے طرز عمل اور طرز سیاست میں اور تحریک انصاف کے سیاسی بیانیے میں کہیں کوئی ایسی جھلک پائی جاتی ہے جو خبر دے کہ وہ یونس ایمرے کی فکر کے اس پہلو سے آگہی رکھتے ہیں؟

یونس ایمرے لمبی لمبی تقریروں اور بھاری بھرکم لفاظی سے آلودہ بیانات کو پسند نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں لفظوں کا بوجھ انسان کو زیب نہیں دیتا۔ کولمبیا یونیورسٹی میں ترک زبان کے سابق استاد طلعت حلمان سے روایت ہے کہ ایمرے کے خیال میں بھاری بھرکم لفظ، تکرار اور لمبی لمبی تقاریر صرف گدھے کو زیب دیتی ہیں، انسان کو نہیں۔ انسان کو اپنی بات سادہ اور مختصر انداز میں کرنی چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تو ایک وزیر اعلیٰ کے ساتھ دو درجن ترجمانوں کا لشکر جرار رکھنے والی حکومت اپنے ترجمانوں، رہنماؤں اور سوشل میڈیا کے وابستگان کو یونس ایمرے کی فکر سے آگہی دینے کی کوئی شعوری کوشش کر سکتی ہے؟

یونس ایمرے حکمرانوں کو بھی نصیحت کرتے ہیں اور انہیں یاد دلاتے ہیں کہ اقتدار ہمیشہ نہیں رہنا۔ اپنی ایک نظم میں وہ حکمرانوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: ’اپنی طاقت اور اپنی تیز زبان پر ناز مت کرو، جلد وہ وقت آنے والا ہے تمہارے بازو کی گرفت کمزور پڑ جائے گی اور تمہاری تلوار جیسی یہ زبان جلد خاک ہو جائے گی۔‘

سوال یہ ہے کیا صرف ڈراما ہی دیکھنا ہے یا یونس ایمرے کی تنبیہہ پر بھی غور کرنا ہے؟ چلیں عوام تو ڈراما دیکھ لیں گے، لیکن اشرافیہ کے لیے تو کچھ خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ کیا یہ ممکن ہے کابینہ کے ہر معزز رکن کو یونس ایمرے کی یہ نظم نئے سال کے تحفے کے طور پر بھجوا دی جائے؟

یونس ایمرے سرا سر محبت ہے۔ ایک نظم میں کہتے ہیں: ’میری دشمنی صرف نفرت سے ہے اور مجھے کسی سے بغض نہیں۔‘ تبدیلی کے اس سفر میں کیا کوئی ایک راہرو ایسا ہے جو یونس ایمرے کی طرح کہہ سکے کہ اس کی دشمنی بھی صرف نفرت سے ہے اور اس سفر میں نفرت اور بغض اس کا زاد راہ نہیں ہے؟

تصوف کے فلسفیانہ پہلو سے قطع نظر، ہر معاشرے میں اہل تصوف کا یکساں سماجی کردار ہے۔ اگر انتقام، حسد، استہزا، الزام تراشی جیسے اخلاقی رزائل کی نفی کر دی جائے اور انکساری و عاجزی کو چشم تصور سے مجسم کر دیا جائے تو ایک صوفی کا خاکہ ابھرتا ہے۔ خان صاحب کیا صوفی کے اس تصور سے واقف ہیں اور مزاج کی تہذیب کے ان عوامل پر یقین رکھتے ہیں؟

عمران خان بار ہا کہہ چکے کہ لیڈر کو مثال بننا چاہیے۔ قوم کو تصوف آمیز ڈراموں کی طرف مائل کرتے ہوئے کیا انہوں نے سوچا ہے کہ اسی اصول کے تحت قوم اگر اس صوفی کو اپنے رہنما میں مجسم دیکھنا چاہے تو جناب وزیر اعظم کی شخصیت اس میں کتنی معاون ہو سکتی ہے؟

ایک اہم سوال یونس ایمرے اور تصوف کے فہم سے متعلق ہے۔ تصوف کی دنیا خبر (علم) کی نہیں نظر کی دنیا ہے۔ خان صاحب مگر تصوف کی یونیورسٹی بنانا چاہتے ہیں۔ کیا اس مشق سے تصوف آ سکے گا اور سماج کی تہذیب ہو سکے گی؟

جناب وزیر اعظم کا مقصود اگر تصوف ہے تو یہ سوالات ان کی توجہ چاہتے ہیں لیکن مقصد اگر ڈراما ہے تو پھر کسی تکلف کی ضرورت نہیں۔ ڈراموں میں، جو مزاحمت کا رجحان رکھتا ہو ارطغرل ڈراما دیکھ لے، جو تصوف کی طرف میلان رکھتا ہو یونس ایمرے ڈراما دیکھ لے۔

مزے میں البتہ وہی ناظرین رہیں گے جو لائیو ڈرامے کا ذوق رکھتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ