صحرائے چولستان میں گرین پاکستان منصوبہ: 40 لاکھ 80 ہزار ایکڑ اراضی کا انتخاب

پنجاب حکومت اور سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کے اشتراک سے صحرائے چولستان میں ’گرین پاکستان‘ منصوبے کے ہزاروں ایکڑ زمین کو زیر کاشت لایا جائے گا۔

گرین پاکستان منصوبے کے تحت صحرائے چولستان میں ہزاروں ایکڑ زمین کو کاشتکاری کے جدید طریقے استعمال کرتے ہوئے زیر کاشت لایا جائے گا (اے ایف پی)

جنوبی پنجاب کے سیاحتی مقام صحرائے چولستان، جو جیپ ریلیز کے لیے بھی جانا جاتا ہے، کو سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) اور صوبائی حکومت کے اشتراک سے ’گرین پاکستان‘ منصوبے کے تحت قابل کاشت بنانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے گذشتہ ہفتے چولستان میں کنڈائی اور شاپو کے علاقوں میں ’گرین پاکستان‘ پروگرام کے تحت  گرین مال اینڈ سروس کمپنی، سمارٹ ایگری فارم، زرعی تحقیق اور سہولت مرکز کا افتتاح کیا۔

 پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پنجاب حکومت صوبے کے چار مختلف علاقوں میں جدید ایگری مالز قائم کر رہی ہے، جہاں کسانوں کو ہر چیز ایک ہی چھت کے نیچے ملے گی جس میں معیاری بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات ملیں گی۔

’اس کے علاوہ انہیں زرعی مشینری کرائے پر مل سکتی ہے اور اس کے ساتھ جدید زرعی فارمز بنائے جائیں گے تاکہ کسان نئے طریقوں سے کاشت کاری کر سکیں۔‘ 

صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل زراعت پر بہت کام کر رہی ہے اس لیے پنجاب حکومت کے اس پروگرام میں پارٹنر ہیں۔

جون 2023 قائم کی گئی ایس آئی ایف سی کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں زراعت، مائننگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں کی جانب راغب کرنا ہے۔ اسی کونسل کے ایک منصوبے کے تحت کارپوریٹ فارمنگ کے ’گرین پاکستان‘ پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔

اسی پروگرام کے تحت حکومت پاکستان اور فوج نے غیر کاشت شدہ اراضی کو مستحکم اور زرخیز بنا کر ملک کے زرعی شعبے کو جدید بنانے کے لیے ’لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم‘ (لمز) تیار کیا ہے۔ 

وفاقی وزارت اطلاعات و مواصلات کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق گرین پاکستان پروگرام کے تحت زرعی مقاصد کے لیے 40 لاکھ 80 ہزار ایکڑ اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے، جب کہ چاروں صوبوں میں نو لاکھ ایکڑ اراضی الاٹ کی جا چکی ہے۔ 

اسی پروگرام کے تحت صحرائے چولستان میں بھی کارپوریٹ فارمنگ شروع ہو چکی ہے اور اب تک دو لاکھ ایکڑ اراضی کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔

پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کھوکھر کا کہنا تھا کہ ’گرین پاکستان منصوبے کے تحت غیر آباد رقبوں کو آباد کیا جا رہا ہے 78 سال سے وہ رقبے پڑے تھے جن پر کسی نے توجہ نہیں دی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان 10 سے 12 ارب ڈالر کی زرعی مصنوعات بیرون ملک سے درآمد کرتا ہے، جن میں کپاس، دالیں، کھانے کا تیل شامل ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی کو 20 سالہ معاہدے کے تحت چولستان میں زمین کاشتکاری کے لیے دی جا رہی ہے ور یہاں سے ھاصل ہونے والی پیداوار سے ملک کو زرمبادلہ حاصل ہو گا۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس منصوبے سے عام کسان کو ہونے والے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں ہونے والی جدید کاشتکاری اور اس کے فوائد کو دیکھتے ہوئے دوسرے کسان بھی ان طریقوں کو اپنا کر فائدہ اٹھائیں گے۔

خالد کھوکھر کا کہنا تھا ان کے علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح 65 فٹ ہو گئی ہے اور اسی لیے پانی بچانے کے جدید طریقوں کو اپنائے بغیر اس سے فائدہ اٹھانا مشکل ہو جائے گا۔

’ہم جدید طریقوں سے 80 فیصد پانی بچا سکتے ہیں اور اس گرین پاکستان اینیشی ایٹیو پروگرام میں پیوٹ سسٹم، ڈرپ ایریگیشن، سپینل ایریگیشن نظام استعمال کیے جائیں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ گرین پاکستان کے تحت لینڈ انفارمیشن اینڈ منیجمنٹ سسٹم (لمز) کے دوسرے شہر یا ملک سے بھی موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے جنوبی پنجاب میں اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔

خالد کھوکھر کے بقول ’ہمارے پاس پہلے کوئی سسٹم نہیں تھے۔ اب بھی لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ پاک فوج کا اس منصوبے میں کیا کام ہے لیکن میں کہوں گا کہ کسان جمع جوان برابر ہیں خوشحال پاکستان۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عام کاشتکار کے لیے گرین پاکستان منصوبے کے تحت پیداواری اخراجات کو کم اور مارکیٹنگ کے طریقہ کار کو بہتر بنایا جائے گا۔

 چولستان میں شروع کیے گئے گرین پاکستان منصوبے کے حوالے سے پنجاب حکومت کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق: ’گرین ایگری مال اینڈ سروسز سروس کمپنی‘ کسانوں کو ان کے گھر کے دروازے پر معیاری بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات رعایتی قیمت پر فراہم کرے گی، جب کہ کسانوں کو ڈرونز سمیت زرعی مشینری رعایتی کرائے پر دستیاب ہو گی۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت