حکومت مستحکم ہے، معاشی اشاریے اچھے ہیں، اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات مثالی ہیں، پاکستان تحریک انصاف منقسم ہے اور باقی اپوزیشن جماعتیں فی الحال ایک گرینڈ الائنس بنانے میں ناکام رہی ہیں۔
یہ ہے دارالحکومت کے حالت حاضرہ کا وہ خلاصہ جو تقریباً سبھی کی سمجھ میں آچکا ہے یا سمجھ میں لایا جا چکا ہے۔
دیگر الفاظ میں حکومت کو قریب قریب کوئی بڑا خطرہ نہیں، البتہ پاکستان پیپلز پارٹی سے دوستانہ فائر کا تبادلہ باقاعدہ لڑائی میں بدل جائے تو الگ بات ہے۔
لیکن پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت مانتی ہے کہ دونوں جماعتوں کے تعلقات میں کتنی بھی تلخی آ جائے وہ وفاقی حکومت کو غیر مستحکم نہیں کرنا چاہیں گے (یا شاید ان کے پاس حکومت کی حمایت سے پیچھے ہٹنے کا آپشن موجود نہیں)۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گذشتہ ہفتے ترک صدر رجب طیب اردوغان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جس میں اعلیٰ حکومتی سیاسی و عسکری قیادت شرکت تھی۔
ظہرانے میں ایک ہی ٹیبل پر بیٹھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ہلکی پھلکی نوک جونک ہوتی رہی جس سے اندازہ لگایا گیا کہ دونوں جماعتیں اختلافات کے باجود جیسے ہے کی بنیاد پر کام جاری رکھیں گی۔
تقریب کے اختتام پر وزیر اعظم شہباز شریف اور ترک صدر طیب اردوغان رخصت ہوئے تو ہم چند صحافی بھی اپنی نشستیں چھوڑ کر باہر کی طرف چل پڑے۔
اتنے میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر باہر کی طرف جا رہے تھے تو صحافیوں کو دیکھ کر رکے اور دعا سلام کے بعد پوچھا کیسے جا رہا ہے؟
جواب ملا آپ کے سامنے ہے ملک اوپر کی طرف جا رہا ہے، ترقی کر رہا ہے اور کیا چاہیے؟ اگلا سوال عمران خان کے آرمی چیف کو لکھے گئے خطوط کے بارے میں تھا، جس پر ان کا جواب سادہ سا تھا کہ انہیں کوئی خط نہیں ملا اور یہ سب کچھ صرف میڈیا گیمک ہے۔
پھر کاؤنٹر سوال ہوا اگر آپ کو وہ خط ملا تو پھر کیا کریں گے؟ آرمی چیف نے جواب دیا کہ اگر کوئی خط ملا بھی تو وہ بغیر پڑھے وزیر اعظم شہباز شریف کو بھجوا دیں گے۔
اب اس گفتگو کا تجزیہ کیا جائے تو ان کا یہ کہنا کہ ملک ترقی کی طرف جا رہا ہے اور ان کی نگاہ ان نشستوں پر تھیں جہاں کچھ لمحات پہلے ترک صدر اور پاکستانی قیادت بیٹھے ہوئے تھے، اس سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ موجودہ حکومت خصوصاً شہباز شریف کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔
اور کوئی خطوط لکھے یا سوشل میڈیا مہمات چلائے کسی چیز کو معاشی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ساتھ ہی ان کی گفتگو میں خط کو وزیر اعظم شہباز شریف کے پاس بغیر پڑھے بھجوانے میں پیغام یہی تھا کہ اپوزیشن جانے اور حکومت، ہم کسی سے نہ کوئی بات کریں گے اور نہ ہی سیاسی معاملات میں مداخلت۔
پہلے کئی کالموں میں یہ تذکرہ تفصیل سے ہو چکا ہے کہ ممکنات کی حد تک کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن تمام اشارے، اشاریے اور آپٹکس یہی بتا رہے ہیں کہ فی الحال موجودہ حکومت اس طرح چلے گی جس طرح چل رہی ہے اور فی الحال دور دور تک کسی تبدیلی کا امکان نہیں نظر آ رہا۔
بہرحال حکومت ایک طرف اگر اسٹبلشمنٹ سے مثالی تعلقات کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے تو وہیں میڈیا اور وکلا میں سے اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی بجائے انگیج کرنا ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چاہے پیکا قانون ہو یا اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی تبدیلیوں پر وکلا تنظیموں کی رائے، اگر تو سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے ساتھ آگے بڑھا جائے تو معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے۔
لیکن اگر تاثر یہ دیا جائے کہ حکومت کوئی بھی من پسند قانون سازی لا سکتی ہے اور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنے تک کو نظر انداز کیا جائے تو پھر معاملات بگڑنے میں دیر نہیں لگتی۔
حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف اندرونی اختلافات میں اتنا ڈوب چکی ہے کہ ایک رہنما رات سوتے وقت پارٹی کا کرتا دھرتا ہوتا ہے تو علی الصبح عمران خان سے ہونے والی چند ملاقاتوں کے بعد پارٹی سے ہی فارغ کر دیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی آج بھی پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعتوں میں ایک ہے لیکن پارٹی کی اندرونی سیاست کو گڈے گڈی کا کھیل بنا دیا گیا ہے، صبح شادی اور شام میں طلاق۔
ایک طرف پنجاب میں مریم نواز منصوبوں کے افتتاح کر رہی ہیں تو دوسری جانب خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں پولیس کی عمل داری تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن تو قومی اسمبلی میں یہاں تک کہہ گئے کہ جنوبی اضلاع میں پولیس نے اپنی عمارتوں میں اندر سے کنڈی لگا لی ہے اور عوام کو شدت پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
اگرچہ اب پارٹی معاملات کو الگ سے دیکھنے کے لیے علی امین گنڈا پور کو صوبائی صدارت سے ہٹا کر جنید اکبر کو سامنے لایا گیا ہے، لیکن پارٹی کے اندر گروپنگ نچلے درجے تک بھی اتنی زیادہ ہے کہ اس تبدیلی سے صوبے کی گورننس پر کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا۔
علی امین کے قریبی دوست شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالا جا چکا ہے اور صوبے میں یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ کیا اگلا نمبر خود علی امین گنڈا پور کا ہے؟
ایسے میں یہ توقع رکھنا دیوانے کا خواب ہی ہے کہ علی امین اپنی توجہ گورننس بہتر بتانے پر رکھیں گے نہ کہ اپنی کرسی بچانے پر۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔