بین الاقوامی اصولوں میں سویلنز کے کورٹ مارشل کی ممانعت نہیں: جج

فوجی عدالت سے سزا یافتہ ایک شخص کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا ’سویلنز کا کورٹ مارشل شفاف ٹرائل کے بین الاقوامی تقاضوں کے خلاف ہے۔‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ میں اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ایک مجرم کے وکیل کی جانب سے اس معاملے میں بین الاقوامی قوانین کے حوالے دینے پر ریمارکس دیے کہ ’بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔‘

منگل کو آئینی عدالت کے سات رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

بینچ میں دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر فوجی عدالت سے سزایافتہ نو مئی کے مجرم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بین الاقوامی قوانین کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ’سویلنز کا کورٹ مارشل شفاف ٹرائل کے بین الاقوامی تقاضوں کے بھی خلاف ہے، بین الاقوامی تقاضا ہے کہ ٹرائل کھلی عدالت میں، آزادانہ اور شفاف ہونا چاہیے، بین الاقوامی قوانین کے مطابق ٹرائل کے فیصلے پبلک ہونے چاہیے۔‘

اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’اگر بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کیا جائےتو نتیجہ کیا ہو گا؟

’کوئی ملک اگر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو کیا ہو گا؟‘

 وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ’بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کرنے کا مطلب ہے کہ ٹرائل شفاف نہیں ہوا، کچھ بین الاقوامی اصولوں کو ماننے کی پابندی ہوتی ہے اور کچھ کی نہیں، شفاف ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے بین الاقوامی اصولوں کی روشنی میں ہی آئین کا حصہ بنایا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’تمام ممالک بین الاقوامی اصولوں پر عمل درآمد کی رپورٹ اقوام متحدہ کو پیش کرتے ہیں، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی رپورٹس کا جائزہ لے کر اپنی رائے دیتی ہے، گذشتہ سال اکتوبر اور نومبر کے اجلاسوں میں پاکستان کے فوجی نظام انصاف کا جائزہ لیا گیا، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے پاکستان میں سویلنز کے کورٹ مارشل پر تشویش ظاہر کی، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے مطابق پاکستان میں فوجی عدالتیں آزاد نہیں۔‘

سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا کہ ’رپورٹ میں حکومت کو فوجی تحویل میں موجود افراد کو ضمانت دینے کا کہا گیا، یورپی یونین کے کمیشن کے مطابق نو مئی احتجاج والوں کا کورٹ مارشل کرنا درست نہیں، یورپی یونین نے ہی پاکستان کو جی ایس پی پلیس سٹیٹس دے رکھا ہے، جسٹس یحیحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں یہی نکات اٹھائے ہیں، ہزاروں افراد کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالتوں (اے ٹی سی) میں ہو سکتا ہے تو ان 105 کا کیوں نہیں؟‘

دوران سماعت سلمان راجہ اور ججزکے درمیان دلچسپ مکالمہ

سلمان راجہ نے کہا کہ برطانیہ میں ایک فیڈلی نامی فوجی کا کورٹ مارشل ہوا، یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس نے اس کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دے دیا تھا، فیڈلی ذہنی تناؤ کا شکار تھا، اس نے فائرنگ کی۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’فیڈلی کی فائرنگ سے بھی ایک ٹی وی ٹوٹ گیا تھا، نو مئی واقعات میں بھی ایک ٹی وی توڑا گیا۔‘ سلمان راجہ نے جواباً کہا کہ ’جس نے نو مئی واقعات میں ٹی وی توڑا اس سے میری ملاقات ہوئی، وہ بیچارہ شرم سے ڈوبا ہوا تھا۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سلمان راجہ سے استفسار کیا ’کیا آپ نے فیڈلی سے ملاقات بھی کی؟‘ اس موقع پر جسٹس نعیم اختر افغان نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’نہیں سلمان راجہ نے پاکستانی فیڈلی سے ملاقات کی ہے۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا ’جس قانون کے تحت کلبھوشن کو اپیل کا حق دیا گیا وہ قانون کیا ہمارے سامنے ہے۔‘ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت سے کہا کہ ’میں وہ قانون ریکارڈ پر لے آؤں گا۔‘

سلمان اکرم راجہ نے اب دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد سپریم کورٹ نے اپیلوں پر سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری کل دلائل کا آغاز کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان