روس اور امریکہ نے منگل کو یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے لیے ٹیمیں مقرر کرنے پر اتفاق کیا ہے، جب کہ کیف نے سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات میں سے اس کے اخراج پر تنقید کی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق: ’امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ’متعلقہ اعلیٰ سطحی ٹیمیں مقرر کرنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ یوکرین میں تنازعہ کو جلد از جلد ختم کرنے کے راستے پر کام شروع کیا جا سکے۔‘
واشنگٹن نے مزید کہا ہے کہ فریقین نے روس اور امریکہ کے تعلقات میں ’خرابیوں‘ کو دور کرنے کے لیے ’مشاورت کا طریقہ کار قائم کرنے‘ پر بھی اتفاق کیا، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ فریقین مستقبل میں تعاون کی بنیاد رکھیں گے۔
صدر ولادی میر پوتن کے خارجہ پالیسی کے معاون یوری یوشاکوف نے مذاکراتی ٹیموں کی تقرری کی تصدیق کی ہے لیکن کہا کہ ٹرمپ اور پوتن کی ممکنہ ملاقات کی تاریخ پر بات کرنا ’مشکل‘ ہے۔
اے ایف پی کے مطابق: ’واشنگٹن نے نوٹ کیا کہ 2022 میں روس اور یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد واشبگٹین اور ماسکو کے درمیان بات چیت کے بعد، یورپی ممالک کو ’کسی مناست وقت‘ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑے گا۔
اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ نے منگل کو کہا ہے کہ امریکہ اور روس نے سعودی عرب کی میزبانی میں ریاض میں ہونے والی ملاقات کے نتیجے میں روس۔ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے کام شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے اور یہ کوشش ابتدائی مراحل میں ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے سعودی عرب میں ہونے والی ملاقات کے بعد کہا: ’ایک فون کال کے بعد ایک ملاقات دیرپا امن قائم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔‘
روس اور امریکہ کے اعلیٰ سفارت کاروں کی منگل کو ہونے والی ملاقات میں باہمی تعلقات بہتر بنانے اور روس اور یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت کی گئی، تاہم ان مذاکرات میں کیئف کا کوئی عہدیدار شریک نہیں تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق مذاکرات میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔
اس ملاقات میں کوئی یوکرینی عہدے دار موجود نہیں تھا۔ جنگ زدہ یوکرین، جو تقریباً تین سال سے جاری اس تنازعے میں پہلے ہی شدید دباؤ میں ہے، آہستہ آہستہ مزید علاقہ کھوتا جا رہا ہے کیوں کہ روسی افواج تعداد میں زیادہ اور وسائل میں برتر ہیں۔
یوکرین کے صدر ولودی میر زیلینسکی نے واضح کر رکھا ہے کہ اگر کیئف کو مذاکرات میں شامل نہ کیا گیا تو وہ کسی بھی نتیجے کو تسلیم نہیں کرے گا۔
ادھر یورپی اتحادیوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ انہیں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
یوکرین کے تنازعے سے ہٹ کر، اس ملاقات کا ایک اور اہم مقصد امریکہ اور روس کے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانا ہے، جو گذشتہ کئی دہائیوں میں اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات کا بنیادی ایجنڈا امریکہ اور روس کے درمیان ’تعلقات کو مکمل بحال کرنا، یوکرین کے تنازعے کے ممکنہ حل پر بات چیت اور دونوں ملکوں کے صدور کی ملاقات کے انتظامات بھی شامل ہوں گے۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ اس ملاقات کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ روس واقعی امن چاہتا ہے یا نہیں اور آیا تفصیلی مذاکرات کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔
امریکا کی حالیہ سفارتی سرگرمیاں اور اتحادیوں میں بےچینی
امریکا کی جانب سے روس۔یوکرین جنگ کے حل کے لیے سفارتی مہم نے یوکرین اور اس کے اہم اتحادیوں کو فوری ردعمل دینے پر مجبور کر دیا کیوں کہ خدشہ ہے کہ واشنگٹن اور ماسکو کوئی ایسا معاہدہ طے کر سکتے ہیں، جو ان کے مفادات کے خلاف ہو۔
منگل کے مذاکرات میں کیئف کی عدم موجودگی نے کئی یوکرینیوں میں بےچینی پیدا کر دی ہے۔ فرانس نے پیر کو یورپی یونین کے ممالک اور برطانیہ کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا، جس میں یوکرین کی جنگ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ٹیمی بروس نے کہا کہ اگرچہ منگل کے مذاکرات میں یوکرین شامل نہیں لیکن کسی بھی حقیقی امن مذاکرات میں کیئف شریک ہو گا۔
ٹرمپ کے پیشرو جو بائیڈن کے دور میں مذاکرات میں یوکرین کی شمولیت امریکی پالیسی کا بنیادی اصول تھی جبکہ بائیڈن انتظامیہ نے جنگ کے معاملے پر روس کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوششوں کی قیادت بھی کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے حکام نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ یورپ کو مذاکرات سے باہر رکھا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داروں متعدد یورپی رہنماؤں کو صورت حال سے آگاہ کیا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے منگل کو کہا کہ انہوں نے پیرس میں بلائے گئے اجلاس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اور وولودی میر زیلینسکی سے فون پر بات کی۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’ہم یوکرین میں مضبوط اور پائیدار امن کے خواہاں ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ اس مقصد کے لیے روس کو اپنی جارحیت ختم کرنا ہوگی اور یوکرین کے لیے مضبوط اور قابلِ اعتماد سکیورٹی ضمانتیں بھی ضروری ہیں۔
ایمانوئل میکروں نے عزم ظاہر کیا کہ ’ہم اس پر تمام یورپی ممالک، امریکیوں اور یوکرینیوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روسی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ نیٹو کو اپنے 2008 کے بخارسٹ سربراہ اجلاس میں کیے گئے وعدے سے دستبردار ہونا ہوگا، جس میں کہا گیا تھا کہ یوکرین مستقبل میں اتحاد کا رکن بنے گا۔ کیئف کی نیٹو میں شمولیت ناقابل قبول ہے۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے واضح کیا: ’یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صرف کیئف کو نیٹو میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کافی نہیں ہوگا۔ نیٹو کو 2008 میں بخارسٹ میں کیے گئے وعدوں سے مکمل طور پر پیچھے ہٹنا ہوگا۔‘