یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
اسمبلی میں وہ عوامی نمائندے بیٹھتے ہیں جنہیں عوام سر پہ بٹھائیں، لیکن عدالت کے منصف کو عوام نہیں نظام بناتا ہے۔ اسی نظام سے عدالت چلتی ہے۔ یہ نظام پہلے سے طے شدہ قواعد و ضوابط، قوانین اور آئین کے مطابق کام کرتا ہے جیسے روبوٹ۔ مسئلہ یہ ہے کہ نظام تو روبوٹک ہوسکتا ہے انسان نہیں۔
مثلاً ججز سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ذاتی عناد، خواہشات، پسند ناپسند سے بالکل عاری ہو کر سپاٹ چہروں، غیر جذباتی انداز اور غیر جانبدار دماغوں کے ساتھ طے شدہ قوانین و آئین کے مطابق فیصلے دیں گے۔ ایسا ہوتا نہیں ہے۔
ایک جج اعلیٰ کردار کا حامل ہو، زیادہ سوشل نہ ہو، جسمانی طور پر صحت مند ہو، نفسیاتی مسائل میں مبتلا نہ ہو، منتقم مزاج نہ ہو، کرپٹ نہ ہو، ملک اور آئین کا وفادار ہو اور صرف اللہ سے ڈرتا ہو۔ ایک اچھے جج سے وابستہ توقعات اوراس میں تلاش کی جانے والی خوبیوں کی یہ فہرست خاصی غیرفطری اور طویل ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججز سے ایک یہ بھی امید لگائی جاتی ہے کہ جج کوئی سیاسی وابستگی نہ رکھتا ہو، کسی پارٹی سے اس کی ہمدردی نہ ہو، اس کا جھکاؤ کسی ایک گروہ کی جانب نہ ہو۔ میری دانست میں توقعات اور خواہشات کی اس فہرست میں ایک اضافہ یہ بھی فرمالیں کہ جج بذات خود سیاست دان مزاج نہ ہو۔
یہ تو بار ہا کہا جاتا ہے کہ عدلیہ کو غیر سیاسی ہونا چاہیے لیکن یہ کہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ عدلیہ کے اندر بھی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ انصاف فراہم کرنے والے ادارے میں ججز کے درمیان بھی گروہ بندی اور لوبنگ ہو تو غیر جانبداری بس نعرہ ہی رہ جاتی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ میں سیاست کا دخل اور ملک کے سیاسی معاملات میں اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت کا معاملہ صرف پاکستان نہیں کئی ممالک میں زیر بحث ہے۔ امریکہ میں صدر روزویلٹ سے لے کر ٹرمپ تک صدور پر عدلیہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے الزامات لگتے رہے۔ ایسے ہی برطانیہ میں بریگزٹ معاملے برطانوی سپریم کورٹ کا فیصلہ سیاسی عدسے سے دیکھا گیا۔ بھارت میں بھی اعلیٰ عدالتوں پر اکثر الزام لگتا رہتا ہے کہ انہوں نے مذہب پسندوں یا سیاسی طاقت کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔
یہ عام سی باتیں ہے کہ تجزیہ نگار ، نقاد ، صحافی اور سیاست دان یہ بحث کرتے ہیں کہ فلاں جج فلاں کیس میں سیاسی معاملہ چھیڑ کر اداروں کے درمیان تقسیم قوت کو غیر متوازن کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بحث کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہے کہ خود عدلیہ میں تقسیم یا گروہ بندی ہے یا نہیں۔
اعلیٰ عدلیہ میں اندرونی سیاست کا شروع ہوجانا یقیناً زیادہ گھمبیر صورت حال ہے۔ ججز کے درمیان باہمی چپقلش، ایک دوسرے پہ فقرے کسنا، خطوط لکھنا، جواب طلب کرنا، بات نہ کرنا، بینچ میں ساتھ نہ بٹھانا ادارے کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے سو ہے لیکن آپسی خلش کا یہ ماحول کھلی عدالت میں بیٹھ کر میڈیا، حکومت اور وکلا کے سامنے لے آنا تو ادارے کی غیر جانبداری پہ سوال ہے۔
ویسے تو پاکستان بننے کے فوری بعد ہی چیف جسٹس محمد منیر نے قوم کو نظریہ ضرورت کا تحفہ دے کر عدالت کو متنازع بنا دیا تھا لیکن اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی اندرونی کھینچا تانی کی کہانی خال خال ہی سامنے آتی تھی۔ اب یہ ہر دوسرے دن کا وطیرہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ججز اور ان کے آپسی تعلقات زیر بحث رہتے ہیں۔
ججز کے کنڈکٹ ، ریمارکس، جملے بازی اور گروہ بندی کے فسانے طشت از بام آنے کا نقصان یہ ہوا کہ کورٹ رپورٹرز اور تجزیہ نگار تو یہاں تک بتانے لگے ہیں کہ عدالت میں کس کا پلڑہ بھاری ہے، کس جج کا جھکاؤ کس فریق کی جانب ہے اور ممکنہ فیصلہ کیا ہو گا۔ فیصلہ دو تین سے آئے گا یا چھ چار سے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدلیہ کی توقیر کا یہی سوال میں نے سینیئر کورٹ رپورٹر محمد کامران خان کے سامنے رکھا۔ کامران صاحب نے اعلیٰ عدلیہ میں تناؤ کے اس ماحول کو سیدھا عوام کا نقصان کہا۔ کہنے لگے، ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پوری طرح متحرک ہے، ایسے میں سپریم کورٹ واحد ادارہ ہے جس کے ججز نے اپنے فیصلوں میں ذاتی ناپسندیدگی کو جھلکنے نہیں دیا۔ جسٹس قاضی اپنے برادر ججز کو بھی ناراض کر رہے ہیں۔‘
میں نے ٹوکا کہ ’کامران صاحب ناراضی کاہے کی؟ ججز کیا ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر فیصلے دیتے ہیں؟‘ تو کامران صاحب نے واضح کیا کہ ’اگر سیاسی نوعیت کے کیسز ایسے ہی آتے رہے اور مہینوں چلتے رہے، ججز کی تعیناتی میں التوا ہوتا رہا اور باہمی تناؤ کا یہ ماحول یونہی چلتا رہا تو اعلیٰ عدلیہ سے عوام کو ریلیف اور انصاف ملنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں، ماتحت عدالتوں سے بھی امید مت رکھیں۔‘
کورٹ رپورٹر حسنات ملک نے اعلیٰ عدلیہ میں تناؤ کے اس ماحول کا حل تجویز کیا ہے کہ ’چیف جسٹس آف پاکستان وقتاً فوقتاً ایک ایجنڈے کے ساتھ فل کورٹ اجلاس کا اہتمام کریں، جہاں ججز ایک دوسرے کو سنیں، تنازعات پر کھل کر بات کریں۔عدالتی بینچ بنانے اور کیسز لگانے کے اختیارات ساتھی ججز میں تقسیم کیے جائیں۔‘
مجھے تو حسنات کا مشورہ پسند آیا۔ جب حکومت چلانے کے لیے کابینہ آئے روز سر جوڑ کر بیٹھ سکتی ہے، جب دفاعی معاملات کور کمانڈرز کانفرنس میں گاہے بگاہے زیر بحث لائے جاتے ہیں تو ایسے ہی عدالت عظمیٰ بھی فل کورٹ اجلاس تواتر سے کیوں نہیں کرسکتی؟
تحریر کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر تو واقعی اعلیٰ عدلیہ میں کوئی پسند ناپسند کا ماحول ہے تو یہ ہم سب کے لیے باعث تشویش ہے۔ وہ لوگ جو اعلیٰ عدلیہ میں موجود غیر محسوس تناؤ کے اس ماحول سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جان لیں کہ آخر کار یہ عدلیہ بھی ہماری ہے اور لوگ بھی اپنے۔ ادارہ بھی ہمارا ہے اور ادارے کا وقار بھی۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔