یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
اونٹ کے گلے میں بندھی گھنٹی کی آواز ساتھ میں اردگرد کھڑے بچوں کا شور اور اونٹ پر لدی کچھ کتابیں۔ مند (بلوچستان) کی اٹھتی ہوئی دھول دیکھنے والوں پر ایک اچھا اثر چھوڑتی ہے، خاص طور پر جہاں پسماندگی عام ہوا اور اس کا رونا روز ہو۔
اونٹ بلوچستان کی ثقافت کاایک اہم حصہ ہے اور دوردراز علاقوں میں استعمال ہونے والی سستی سواری ہے۔ مند میں رہنے والے بچوں کے لیے اونٹ لائبریری الف لیلیٰ نامی ایک تنظیم کی طرف سے ایک عطیہ ہے جو کہ زبیدہ جلال ہائی سکول کی پرنسپل رحیمہ جلال کے حوالے کیاگیا۔
تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم الف لیلیٰ کی روح رواں محترمہ بصارت کے مطابق ان کی تنظیم نے ایک اونٹ، اونٹ والا جس کی تنخواہ 18000 روپے مقرر کی گئی تھی اور 500 کتابیں مہیا کیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن زبیدہ جلال، وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار، نے رابطہ کیا اور انہیں ایک تصویر دکھائی جو کہ ’ایتھوپیا‘ کے ایک علاقے کی تھی جہاں اونٹ کو لائبریری کا ذریعہ بنایاگیا تھا۔ اسی سلسلے میں سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی جس میں نوجوانوں سے یہ سوال کیا گیا کہ ایک کتب خانے کے لیے کیا چاہیے ہوتا ہے؟ نوجوانوں نے وہی جواب دیا جو ہونا چاہیے تھا ایک ڈیجیٹل لائبریری.... جہاں ایک اونٹ مواصلات کے حوالے سے ماحول دوست ذریعہ ہے لیکن اب ہمیں سوچنا یہ پڑے گا کہ کب بلوچستان کے عوام پتھروں کے قدیمی نظام سے باہر نکلیں گے۔
زبیدہ جلال کا تعلق اسی مند سے ہے۔ 1999 سے انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ پرویز مشرف کی قائم کردہ نگراں حکومت کا حصہ بننے کے بعد 2002 میں انہی کی بنائی جماعت مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے کامیابی کے بعد وہ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی کابینہ میں بلوچستان کی جانب سے ایک ’گڈ فیس‘ کے طور پر ابھریں۔ 2002 سے لے کر 2007 تک وزیر تعلیم رہیں اور پھر پانچ سال کے وقفہ کے بعد مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔
2018 کے الیکشن میں نومولود سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی یا ’باپ‘ میں شمولیت اختیار کی اور اب بحیثیت وفاقی وزیر وفاقی کابینہ میں ہیں۔
مند ڈسٹرکٹ کیچ (مکران) بلوچستان کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ وہی مکران جہاں کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ بلوچستان میں اسے ایک دلکش ریگستان سے تشبہہ دی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان نے ایسا کیوں کہا؟
اس ضمن میں دو خاص پہلو ہوسکتے ہیں ایک تو وزیر اعظم کے ساتھ موجود بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وزرا نے انہیں کیچ مکران کی تاریخ بتانے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لی اور دوسرا یہ کہ وہاں کی بدحالی دیکھ کر وزیر اعظم کو یہ گمان گزرا ہوگا کہ وہ ایک ریگستان میں موجود ہیں۔
ہم میں سے اکثر وہ لوگ جو بلوچستان سے تعلق نہیں رکھتے ہیں جب بلوچستان کی پسماندگی کا ذکر سنتے ہیں تو اس کا ذمہ دار سرداروں اور نوابوں کو قرار دیتے ہیں۔ مکران کے پس منظر میں ہم قبائلی اور سرداری نظام کی بجائے ایک طویل عرصے سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے قوم پرست جماعتوں کے گرد نظر آتا ہے جس میں بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی سرفہرست نظر آتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں ہمیشہ قبائلی نظام کی مخالفت کرتے ہوئے متبادل کی بات کی۔ زبیدہ جلال اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم ایک اہم عہدہ تھا اور اسی طرح دفاعی امور کا عہدہ بھی اہم ہے لیکن افسوس یہ اہم ترین عہدہ اپنے علاقے مند کو آج تک ایک انٹر کالج دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
مقامی صحافی مسلم یعقوب کے مطابق مند کی آبادی اس وقت 50 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور اکیسویں صدی میں مند کے تعلیمی اداروں کی صورت حال تباہ کن ہے۔ ان کا بظاہر کوئی پرسان حال نہیں۔ مند ٹاؤن کے ایسے علاقے جہاں آبادی زیادہ ہے ان علاقوں میں بلوچ آباد، میتاپ، سورو اور لبنان کے علاقے شامل ہیں۔ یہاں قائم گورنمنٹ بوائز اور گرلز سکولز کی صورت حال ناقابل بیان ہے۔ اکثر سکولوں کی نہ تو چھتیں ہیں اور نہ ہی کھڑکیاں، بجلی اور پانی تو دور کی بات ہے مخدوش حالت میں اس وقت مند کے سکول منشیات کے عادی افراد کے لیے پناہ گاہ ہیں۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ سرکاری طور پر ان سکولوں کے سالانہ بجٹ کہاں جاتے ہیں؟ تعلیمی ذرائع کے مطابق مند ٹاؤن میں 14 گرلز اور بوائز سکول ہیں جن میں گرلز ہائی سکولز کی تعداد صرف چار ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں کھنڈرات کی صورت اختیار کرچکی ہیں۔
بلوچ گنجان آباد علاقے میں ایک ہائی سکول بھی موجود نہیں ہے۔ زبیدہ جلال جس علاقے سورو سے تعلق رکھتی ہیں وہاں دن بدن گرلز طلبہ کی تعلیمی شرح کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی اہم وجہ سائنس کے مضامین کے لیے کسی قسم کی سائنس لیب کا وجود نہ ہونا اور سائنسی مضامین کے لیے فقط ایک سائنس ٹیچر کا ہونا شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زبیدہ جلال کے نام سے جس سکول کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ بھی صرف مڈل تک ہے۔ عمومی طور پر دیکھاگیا ہے کہ میٹرک کے بعد یہاں کے بچوں کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ ہر دس میں سے صرف چار بچے ہائی سکول کے بعد اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں مند سے تمپ شہر کا سفر کرنا پڑتا ہے اور انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ان دنوں شہروں کے درمیان سڑک جیسی بنیادی سہولت ہی موجود نہیں۔
اس کا نتیجہ ہم یہ اخذ کریں کہ وفاقی کابینہ میں ایک لمبے عرصے سے نمائندگی کے باوجود ہم اپنے علاقے کو ایک سڑک کی سہولت بھی مہیا نہیں کر سکتے۔ مند سول سوسائٹی کے صدر حاجی حنیف رند کے مطابق لالہ رشید، اکبر آسکانی، رﺅف رند اور زبیدہ جلال جیسی شخصیات کا یہاں سے تعلق ہونے کے باوجود یہ شہر مسائل کی آماجگاہ ہے۔ مند ٹو تربت روڈ یہاں کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ کئی خواتین اور بیمار افراد علاقے میں صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے سڑک نہ ہونے کے باعث راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ کروڑوں کی رقم اس مدد میں مختص کی گئی مگر سڑک نامی شے ہمیں دیکھنے کو نصیب نہ ہوئی۔
جب ہم نے سوال کیا کہ آپ اپنے علاقے کے نمائندوں کے خلاف احتجاج کا حق کیوں استعمال نہیں کرتے، تو انہوں نے بتایا کہ 2018 کے بعد سے منتخب ہونے والے نمائندے نادیدہ قوتیں بن چکی ہیں۔ عوامی کوششوں کے بعد چند ماہ قبل ایک جرگہ مسائل کے حل کے لیے منعقد کیا گیا تھا جس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
بلوچستان کے اکثر علاقے سکیورٹی کی وجہ سے فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔ ایسے میں عوامی نمائندوں کی عدم توجہی آنے والے وقتوں میں مزید مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔
مختلف اخبارات میں یہ خبر شائع ہونے کے بعد مزید تحقیقات سامنے نہ آسکیں کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ قومی احتساب بیورو سے توانا پاکستان پروجیکٹ میں 3 ارب 60 کروڑ روپے کی کرپشن کے سلسلے میں زبیدہ جلال کو تحقیقات کے کٹہرے میں لانے اور اس میں ملوث دیگر افراد کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ (یاد رہے یہ سکیم پرویز مشرف کے دور 2002 میں شروع کی گئی تھی اور اس کا مقصد ضلعی کوآرڈی نیشن آفیسرز (ڈی سی اوز) کے ساتھ مل کر بچوں میں غذائی قلت کو دور کرنے کے لیے دودھ اور مکھن کی تقسیم کرنا تھا)۔ آج جب نیب سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انتہائی مختصر جواب تھا کہ عدم شواہد کی بنا پر یہ کیس بند کر دیا گیا تھا۔
بلوچستان کے موجودہ حالات دیکھتے ہوئے ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا گڈ فیس فرام بلوچستان، صوبے کی محرومیوں کا ازالہ کر پایا ہے اور اگر یہ مستقبل میں بھی نہ ہو پایا تو ہم آنے والے وقتوں میں بھی ڈیجیٹل لائبریری کاخواب بھول کر اونٹ پر ہی گزارہ کریں۔