یورپ کے ممالک کی مشترکہ پارلیمان (یورپین یونین پارلیمنٹ) نے ایک قرارداد کے ذریعے یورپی ملکوں میں درآمد ہونے والی پاکستانی مصنوعات پر جی ایس پی پلس سٹیٹس کے تحت ڈیوٹیز اور ٹیکسوں کی چھوٹ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعے کو منظور ہونے والی قرارداد برائے پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کو بنیاد بنایا گیا ہے، جب کہ اقلیتوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی تنظیموں پر آن لائن اور آف لائن بڑھتے ہوئے مبینہ حملوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔
ماہرین کے خیال میں یورپین یونین پارلیمنٹ کی قرارداد سے پاکستان کو فوری طور پر کسی نقصان کا احتمال تو نہیں ہے، تاہم مستقبل بعید میں اس کے نتائج برے نکل سکتے ہیں اور اسی لیے پاکستان کو اپنے اندرونی معاملات ٹھیک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں معاشی اور عالمی امور کے ماہرین سے گفتگو کی جنہوں نے یورپین یونین پارلیمنٹ میں اس قرارداد کی منظوری کو پاکستان کے لیے برا شگون قرار دیتے ہوئے اس کے اقتصادی، اور سفارتی مسائل کو گمبھیر قرار دیا۔
سیاسی تجزیہ کار اور ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق یورپین یونین پارلیمنٹ میں منطور ہونے والی قرارداد پر ای یو ممالک عمل کرنے کے پابند نہیں ہوتے۔ ’اس لیے ضروری نہیں کہ تمام یورپی ملک پاکستان سے جی ایس پی پلس سٹیٹیس کے تحت حاصل مراعات واپس لے لیں، فی الحال ایسا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے۔‘
سفارتی مسائل
اسلام آباد میں ریسرچ اور ایڈووکیسی پر کام کرنے والے تھینک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پیپس) کے ڈائریکٹر عامر رانا کا اس سلسلہ میں کہنا تھا کہ یورپین یونین پارلیمنٹ میں قرارداد کی منظوری مستقبل میں پاکستان سے متعلق کئی منفی چیزوں کا متحرک ثابت ہو سکتی ہے۔
ان کے خیال میں اس قرارداد کے بعد پاکستان پر سفارتی دباؤ میں اضافہ ہو گا، کیونکہ اسلام آباد کو دنیا کے ہر اور خصوصا یورپی دارالحکومتوں میں اپنی پوزیشن واضح کرنا پڑ سکتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’اگر یورپی ممالک میں پاکستان سے متعلق ایسا کوئی احساس اٹھتا ہے، اور اس پر ایکشن لیا جاتا ہے تو باقی دنیا پر بھی ان عوامل سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی۔‘
دفاعی تجزیہ کار جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے بھی اس تجزیے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگر یورپ میں ایسی سوچ اپنا لی جاتی ہے کہ پاکستان میں مذہبی منافرت بہت زیادہ ہے تو اس کا اثر پوری دنیا میں دیکھنے کو ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ پاکستان کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ’قومی اسمبلی میں فرانس کے سفیر کی واپسی سے متعلق قرار داد پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی، اسی سے یہ مسئلہ اٹھا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی چھوٹا ملک کسی ایک بڑے ملک کی مدد اور حمایت پر نہیں چل سکتا، اسی طرح پاکستان بھی صرف امریکہ کی سپورٹ سے معاملات کو آگے نہیں بڑھا سکے گا۔ ’اس وقت امریکہ کا واحد مقصد افغانستان سے نکلنا ہے، اور یہ پورا ہونے کے بعد اس کے لیے پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی۔‘
جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے مزید کہا کہ امریکہ کے منہ موڑنے کے امکانات کی موجودگی میں اسلام آباد کو چین پر پہلے سے زیادہ انحصار بڑھانا ہو گا۔
ان کے خیال میں یورپین یونین پارلیمنٹ کی پاکستان سے متعلق قرارداد مستقبل میں فیٹف سے زیادہ بڑے مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
عامر رانا کا خیال تھا: ’یورپی معاشروں میں یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان میں مذہبی منافرت سے جڑے واقعات سے ان کے ہاں مقیم مسلمان کمیونٹیز ضرور متاثر ہوتی ہیں جس سے ان کے لیے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا یہی وجہ ہے کہ اب یہ مسئلہ سیکیورٹی سے زیادہ سیاسی بنتا جا رہا ہے۔
اقتصادی مسائل
ڈاکٹر فرخ سلیم کے خیال میں جی ایس پی پلس سٹیٹیس ملنے کے بعد یورپی ملکوں کو پاکستانی مصنوعات کی برآمد میں کوئی بہت بڑا اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ ’پہلے پانچ سے سات سالوں میں یورپ جانے والی پاکستانی گارمنٹس کی مصنوعات میں صرف بارہ سے تیرہ فیصد اضافہ ہوا تھا جو بہت بڑا نہیں ہے۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ یورپ کے ساتھ ہمارا ٹریڈ ڈیفیسیٹ مثبت ہے، کیونکہ پاکستان یورپی ملکوں کو آٹھ ارب ڈالر کی اشیا بھیجتا ہے جبکہ وہاں سے پانچ ارب ڈالر کی درآمد کرتا ہے، اس لحاظ سے جی اسی پی پلس سٹیٹس چھن جانے کی صورت میں ہمیں نقصان ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمعے کو یورپی ملکوں کی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قرارداد کا نفسیاتی اثر بہت زیادہ لیا جا رہا ہے، حالانکہ کہ اس کا کوئی اتنا بڑا نقصان نہیں ہونے لگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے قبول کیا کہ آنے والے وقت میں پاکستان کے لیے اس قرارداد کی وجہ سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ’ہم کسی جزیرے میں نہیں رہ رہے بلکہ یہ دنیا گلوبل ویلج ہے اور ای یو ایک بہت بڑا ادارہ ہے اور اس کے فیصلے دنیا کے دوسرے مملکوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کا اس سلسلے میں کہنا تھا دنیا کے بڑے ادارے جن پر پاکستان مالی امور میں انحصار کرتا ہے ایسے فیصلوں سے اثر قبول کر سکتے ہیں۔ ’اور اگر وہ یہ اثر قبول کرتے ہیں تو پاکستان کے لیے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ بڑے عالمی مالیاتی ادارے بشمول ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف اور حتی کہ فیٹف جیسے ادارے بھی یورپین یونین پارلیمنٹ کی قرارداد کی منظوری کو سنجیدہ لے سکتے ہیں۔
جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس سلسلے میں زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے معاملات سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔
جی ایس پی پلس کے فوائد
جی ایس پی پلس سٹیٹس (Generalised Scheme of Preferences) کے تحت غیر یورپی ممالک کو یورپ برآمد کی جانے والی منتخب اشیا پر ڈیوٹی سے استثنٰی حاصل ہوتا ہے۔
پاکستان کو 2014 میں جی ایس پی پلس کا درجہ حاصل ہوا جس کے بعد اس کی یورپی ممالک کے ساتھ تجارت میں پچاس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔
حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کے بعد یورپی ممالک پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہیں، جہاں دو درجن سے زیادہ ملکوں میں پاکستانی مصنوعات پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں ہوتی۔
یورپی ممالک دنیا کے ترقی پذیر ملکوں کو ان کی اکانومی کو بہتر بنانے کے لیے جی ایس پی پلس کا سٹیٹیس دیتے ہیں، جس کے لیے ان ممالک کو بعض عالمی معاہدوں اور کنوینشنز پر دستخط کرنا پڑتے ہیں۔
پاکستان علما کونسل کا موقف
اس حوالے سے چیئرمین پاکستان علما کونسل اورنمائندہ خصوصی وزیر اعظم برائے مذہبی ہم آہنگی طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ پاکستان کا اسلامک فوبیا کے حوالے سے موقف پوری امت مسلمہ کی ترجمانی ہے۔ تمام مکاتب فکر اورمذاہب کے قائدین یورپی یونین کی قراردادکومسترد کرتے ہیں، یورپی یونین حقائق کی تحقیق کرے، آزادی اظہار یا آزادی مذہب کے نام پر تشدد یا فساد برپا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اسلامک فوبیا اور تحفظ ناموس رسالت کے بارے میں موقف بڑا واضح ہے۔ تمام مکاتب فکر اورمذاہب کے قائدین یورپی یونین کی قرارداد کومسترد کرتے ہیں جو انہوں نے یورپی یونین پارلیمنٹ میں منظور کی۔