کچھ اہم حقائق اب واضح ہیں۔ ان کی تصدیق اب پاکستان کے اہم اداروں نے بھی کر دی ہے، لیکن پاکستان میں آگے کا راستہ متعین نہیں ہو پایا۔ اپریل کے بعد اب پاکستان اور بھارت کے بیک چینل کے معاملات پر کچھ بریک سی لگ گئی ہے۔
پاکستان بھارت کے سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ افسران گاہے بگاہے 2018 سے بیک چینل گفتگو میں مصروف رہے تھے۔ دسمبر 2020 میں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے پاکستان کو باقاعدہ بات چیت شروع کرنے کی ایک پیشکش کی تھی۔
بھارت نے اس مرتبہ سکیورٹی اداروں کے حوالے سے بات چیت کو آگے بڑھانا چاہا یہ سوچ کر کہ پاکستان میں بھارت پر پالیسی کے حوالے سے فیصلے زیادہ تر سکیورٹی ادارے کرتے ہیں۔
بھارتی سوچ موجودہ حالات کے مطابق درست نہیں۔ اس وقت پاکستان میں جو پالیسی سازی کا عمل ہے اس میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے چند نئے عناصر بھی سامنے آئے ہیں۔
سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی سمت اور اس کا طریقہ کار طے کرنے کے حوالے سے پاکستان کے اداروں میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔
یہ یکم اپریل کو واضح ہو گیا تھا جب ای سی سی نے طے کیا کہ بھارت سے کپاس اور چینی درآمد کی جائے۔ کابینہ نے 24 گھنٹے کے اندر اندر یہ واضح کر دیا کہ یہ پالیسی کابینہ کو منظور نہیں۔
کہا یہ جاتا ہے کہ سکیورٹی اداروں کو اس فیصلے پر کافی حیرانی ہوئی تھی کیونکہ یہ ایک خیال تھا کہ کچھ تجارت شروع کر کے، کچھ ایک دوسرے کو خیرسگالی کے پیغامات بھیج کر، کچھ اور بات چیت کر کے اور کچھ دیگر اقدمات اٹھا کر تعلقات کو اس نہج پر لایا جائے کہ سارک سمٹ بھی شروع کر دی جائے۔
پھر کچھ یہ بھی خیال تھا کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت جو غیرکشمیریوں کو کشمیر میں منتقل کر کے انہیں ڈومیسائل دے رہا ہے آرٹیکل 35 اے کی نفی کرتا ہے۔ وہ اس عمل کو روکے اور آبادیاتی تبدیلی نہ ہونے دے۔
بہرحال یہ سوچ آگے بڑھتی ہوئی نظر نہیں آ رہی اور پہلی مرتبہ دکھائی دے رہا ہے کہ جہاں پاکستان کے سکیورٹی کے ادارے بھارت سے تعلقات پھر سے قائم کرنے کے لیے زیادہ مائل ہیں وہاں کچھ ایسی سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ بھارت کی تجویز کہ دونوں ممالک کے درمیان ہر مسئلے پر الگ الگ بات کی جائے۔
مثلا سیاچن، سرکریک، سندھ طاس معاہدہ، دہشت گردی، ماحولیات اور کشمیر وغیرہ پر الگ الگ بات ہو اور الگ الگ حل بھی سامنے آئیں تاکہ یہ نہ ہو کہ ایک کشمیر پر بات آگے نہ بڑھے تو کسی چیز پر بھی بات نہ بڑھے پائے۔
یہ خیال پاکستان میں کچھ اداروں کا بھی ہے لیکن یہ کوئی نئی سوچ اور نیا طریقہ نہیں ہے۔
90 کی دہائی سے لے کر یہی ایک طریقہ ہے جو دونوں ہمسایہ ممالک نے ہر بات چیت میں اپنایا ہے۔ مختلف مسائل پر مختلف ورکنگ گروپس بنتے ہیں لیکن تین دہائیوں میں کسی بھی ایک ایشو پر کوئی نتیجہ خیز پیش فرت نہیں ہوئی۔
اس پس منظر کے باوجود یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات باہمی مذاکرات کے ذریعے ہی بہتر ہو پائیں گے۔
مذاکرات کے ذریعے ہی مسائل کا حل بھی سامنے آئے گا لیکن اس سے قطع نظر پاکستان کے لیے سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان فوری طور پر تعلقات کو معمول پر لانا شروع کر دے اور تجارت شروع کر دے۔ کچھ اداروں اور حکومت کے کچھ حصوں میں یہ سوچ تھی کہ تجارت شروع کر دی جائے اسی بنیاد پر کہ بھارت بات کرنے پر تیار ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ وہ کشمیر پر بھی بات کریں گے۔
کیا اس وقت پاکستان کو اشد ضرورت ہے کہ بات چیت فوری شروع کی جائے اور کیا پچھلی تین دہائیوں کے مذاکرات سے ہٹ کر کوئی نیا طریقہ اپنایا جائے گا تاکہ اصل میں معاملات آگے بڑھیں؟ کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر عمل ہوگا یا بھارت کے ذہن میں صرف لینے لینے کی سوچ ہے؟
یہ بات ظاہر ہے کہ بھارت بہت سی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ان میں اقتصادی، اندرون خانہ سیاسی مشکلات اور چین کے ساتھ عسکری سطح پر جو بگڑتی صورت حال ہے ان سب کو دیکھتے ہوئے بھارت پاکستان سے بات کرنے پر مجبور ہوا ہے۔
بھارت کے جو کشمیر سے متعلق ارادے تھے کہ وہ کشمیریوں کو رام کر لے گا وہ بھی نہیں کر پایا۔ اس وقت بھارت کے اپنے سکیورٹی ماہرین نے متعدد مرتبہ پچھلے کچھ مہینوں میں ’ٹو فرنٹس‘ کی بات کی ہے یعنی پاکستان اور چین کی طرف سے کوئی جارحانہ قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔
خاص طور پر چین کی طرف سے اگر کوئی جارحانہ قدم اٹھایا گیا تو پاکستان بھی اس میں چین کا ساتھی بن کر بھارت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
کشمیر میں بھی آزادی کی آگ پھر تیزی سے بھڑک سکتی ہے جس کو یہ بھی کہا جا رہا ہے Two and half front situation تو بھارت کو یہ تمام مشکلات ہیں اس وجہ سے وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت چاہتا ہے۔
1962 میں بھارت نے امریکہ کی ثالثی کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنا چاہی اور بھٹو سورن سنگھ مذاکرات ہوئے۔
اس وقت بھی بھارت کا مقصد یہی تھا اور امریکہ نے اس کی مدد کی کہ چین سے بھارت پر جو دباؤ آ رہا تھا اس کو کم کیا جائے۔
بالکل ایسا ہی ہوا۔ بھٹو سورن سنگھ مذاکرات کے چھ دور ہوئے اور اس کے بعد جب چین کا خطرہ ٹل گیا تو بھارت نے بات چیت سے ہی انحراف کر کے مذاکرات کو ختم کر دیا۔
60 سال پہلے بھارت نے پاکستان کے ساتھ یہ رویہ اپنایا تھا کہ مشکل کے وقت اس سے بات چیت کرنا چاہی تو آج بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت پھر سے یہی کرے گا۔
بھارت کی اصل پالیسی پاکستان میں بگاڑ پیدا کرنا پاکستان کے لیے ’دو محاذ صورت حال‘ پیدا کرنا ہے۔ ایک طرف اپنے بارڈر سے پاکستان کی مشکلات بڑھانا اور دوسری طرف افغانستان کی سرحد سے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف ای یو ڈس انفارمیشن لیب نے جو سخت پراپیگینڈا کیا اس سے بھارت کی اصلیت سامنے آگئی۔
پاکستان میں اس وقت بھارت سے بات چیت شروع کرنے میں کوئی اختلافی نوٹ نہیں پایا جاتا۔ البتہ یہ ہے کہ کن حالات میں کس طریقہ سے اور کس حد تک بھارت کو انگیج کیا جائے واضح نہیں۔
کسی بھی بات چیت کو شروع کرنے کے لیے کشمیریوں کے تناظر میں بھارت اپنی پالیسی سے پیچھے ہٹے یہ بہت لازمی ہے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کو بھارت سے کچھ توقعات بھی ہوں گی۔
ایک تو یہ کہ پاکستان کے خلاف پروپیگینڈا بند کرے مثلا ایف اے ٹی ایف میں بھارت نے جو منفی رویہ اختیار کیا ہے اس کو ختم کرے اور افغانستان کے ذریعے دہشت گردی کو روکے۔
یہ سب چیزیں ہیں جن پر بھارت کو عمل کرکے کچھ دکھانا ہوگا۔ اس سے قبل کہ پاکستان بھارت سے تجارت کی کوئی بات آگے لے کر جائے، اس سے پہلے کہ کوئی بات چیت شروع ہو کشمیر پر بھارت کو اپنے اگست 2019 کے فیصلے کے حوالے سے کچھ اقدامات اٹھا نے پڑیں گے۔
پاکستان میں کسی حتمی فیصلے پر پہچنے میں شاید وقت لگے۔ معاملات پیچیدہ ہیں۔ تاریخ کا سبق ہے کہ بھارت کی پیشکش کو دیکھ بھال کر قبول کرنا چاہیے۔
اور یہ کام سکیورٹی ادارے نہیں کر پاتے۔ چاہے دوستی کا کچا ہاتھ یا جنگ کا کچا منصوبہ، پاکستان نے آخر آگرہ اور کارگل دونوں بھگتے ہیں۔ بات چیت ضرور لیکن سوچ سمجھ کر۔