یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کریں
رنگ روڈ سیکنڈل تو اس کرم فرمائی کا محض ایک جلوہ ہے، ریل اسٹیٹ سیکٹر کی ہنر کاری اس سے کہیں ز یادہ سنگین ہے۔ کیا ہم جان سکتے ہیں کہ حکومت کہاں ہے؟ وہ بھی عوام کی طرح بے بس ہے یا وہ اس واردات میں ریل اسٹیٹ سیکٹر کی سہولت کار بن چکی ہے؟
اہل اقتدار صبح شام رجز پڑھ رہے ہیں کہ ہم نے کسی مافیا کو نہیں چھوڑنا۔ سوال یہ ہے یہ میاں مٹھو کی طرح دو چار جملوں کی تکرار ہے یا انہیں معلوم ہے مافیا کسے کہتے ہیں اور کیا ان میں اتنا دم خم ہے کہ اس مافیا پر ہاتھ ڈال سکیں؟
مشاہدے اور دستیاب اطلاعات کا حاصل چند سوالات ہیں۔ نئے پاکستان میں کوئی ان کا جواب دے سکے تو ’عین نواش ہو گی۔‘
اسلام آباد کی شاہراہوں پر نت نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے پینا فلیکس لگے ہوتے ہیں۔ مہینوں ان کی مہم چلتی ہے۔ اعلانیہ طور پر یہ فائلیں بیچتے ہیں۔ پھر وہاں گھر بن جاتے ہیں۔ جب وہ آباد ہو جاتی ہیں تو سی ڈی اے کی طرف سے ایک اشتہار جاری ہوتا ہے کہ مشتری ہوشیار باش، فلاں فلاں سوسائٹی غیر قانونی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اسلام آباد میں اشتہاری مہم متعلقہ اداروں کی اجازت سے فیس کی ادائیگی کے بعد چل سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ غیر قانونی سوسائٹی کو اسلام آباد میں اشتہاری مہم چلانے اور پلاٹ بیچنے کی اجازت کون دیتا ہے، کیوں دیتا ہے اور کتنے میں دیتا ہے؟
کوئی سوسائٹی اگر غیر قانونی ہے تو اس کی اشتہاری مہم سے فائلوں اور پھر پلاٹوں کی خرید و فروخت تک حکومت خاموش کیوں رہتی ہے؟ این او سی لیے بغیر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے اشتہارات نجی چینلوں پر کیسے چل جاتے ہیں؟ کیا پیمرا کی کوئی ذمہ داری نہیں؟ کیا عوام کو دھوکہ دینے کی اس واردات میں سبھی سہولت کار بن جاتے ہیں؟
ایسی سوسائٹیوں کا آسان ترین شکار اوورسیز پاکستانی بنتے ہیں۔ جب نجی ٹی وی چینلوں پر وہ ان سوسائٹیوں کے پرکشش اشتہارات کی بھرمار دیکھتے ہیں تو بہتر مستقبل کی خاطر یہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ دھوکہ ہو گیا۔ حکومت بھی یہ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اسے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ اور ڈالروں کی محبت تو بے چین کیے رہتی ہے لیکن اس سے یہ نہیں ہو سکتا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو دھوکے سے بچائے؟ کیا کوئی ایسا میکنزم موجود ہے کہ اوورسیز پاکستانی اوورسیز وزارت میں کہیں فون کریں اور انہیں معلومات حاصل ہو سکیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہاؤسنگ سوسائٹیاں این او سی لیے بغیر فائلین بیچنا شروع کر دیتی ہیں۔ لوگ فائل لیتے ہیں۔ آٹھ دس سال قسطیں ادا کرتے ہیں اور پھر انہیں خبر ہوتی ہے کہ سوسائٹی کے پاس تو زمین ہی نہیں ہے۔ زمین پر دو ہزار پلاٹ ہیں لیکن فائلیں 20 ہزار پلاٹوں کی بیچی جا چکی ہیں۔ نقشے پر پلاٹ موجود ہوتا ہے اور اس کا نمبر بھی لگ چکا ہوتا ہے اور گلی نمبر بھی الاٹ ہو چکا ہوتا ہے لیکن موقعے پر جا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے یہ زمین تو ابھی کسی اور کی ملکیت ہے اور وہ سوسائٹی کو بیچ ہی نہیں رہا۔ ایسے میں خریدارکیا کرے؟ کیا اسے کوئی بتا سکتا ہے کہ جو زمین ابھی سوسائٹی کی ملکیت بھی نہیں وہاں اس کا نقشہ کیسے بن گیا اور اس نقشے کو پاس کس نے کر دیا اور وہ بیچ کیسے دیا گیا؟
کیا کسی کو یہ سوچنے کی توفیق ہوئی کہ فائلیں بیچی ہی کیوں جاتی ہیں؟ سیدھے پلاٹ کیوں نہیں بیچے جاتے؟ فائلیں بیچنی ہیں تو کیا ان کی تعداد دستیاب پلاٹوں کے برابر نہیں ہونی چاہیے؟ اس ضمن میں کیا کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ این او سی کے بغیر فائلیں اور حتیٰ کہ پلاٹس کیسے اور کیوں بیچے جاتے ہیں؟ کیا یہ دھوکہ دہی نہیں ہے؟
کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ فائلوں کے بعد پلاٹ کتنی مدت میں ملے گا۔ اس سلسلے میں کوئی قانون سازی موجوو نہیں۔ پلاٹ کی قسط کی ادائیگی میں تاخیر ہو جائے تو سود یا جرمانے کی مد میں اضافی رقم لی جاتی ہے لیکن پلاٹ 20 سال بعد بھی نہ ملے تو انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ شہریوں کو اس مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پلاٹ ملے یا نہ ملے یہ لوگوں کی اپنی قسمت۔ حکومت کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ اور سکون تو ویسے ہی قبر میں ہے۔
کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے لیے ایک قانون ہے لیکن وہ ناکافی ہے اور خریدار کے ساتھ مذاق ہے۔ اس میں ایسا کوئی اہتمام نہیں کہ خریدار کے ساتھ دھوکہ نہ ہو سکے۔ ’سد الزرائع‘ کی کوئی سوچ کہیں کارفرما نہیں۔ ہاں جب کسی کے ساتھ دھوکہ ہو جائے تو دادرسی کا ایک طریقہ کار ضرور موجود ہے لیکن طویل اور اکتا دینے والا۔ ریئل اسٹیٹ والے اس قانون کو دیکھتے ہیں، قہقہہ لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کو آنکھ مار کر کہتے ہیں کہ اس قانون سے تو آپ نے بالکل گھبرانا نہیں۔
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ریل اسٹیٹ میں ہونے والے فراڈ کی داد رسی کے لیے ہر شہر میں الگ سے عدالتیں قائم کر دی جائیں جہاں ایک دو ہفتوں میں معاملات کا فیصلہ ہو جائے؟ کیا یہ انصاف ہے کہ سالوں قسطیں دینے والا آدمی دس بیس سال اب حصول انصاف کے لیے دھکے کھاتا پھرے اور وکیلوں کی فیسیں دیتا رہے؟ لیکن اگر آپ نے پلاٹ کو آپریٹو سوسائٹی سے نہیں لیا بلکہ کسی ’کمپنی‘ سے لیا ہے تو پھر آپ کس دیوار گریہ پر سر رکھ کر روئیں گے؟
کیا ریئل اسٹیٹ کو ریاست کے اندر ریاست سمجھا جائے جس کے سامنے سب بے بس ہیں؟ احتساب کے شورو غل میں ابھی ذرائع آمدن بتانے سے استثنیٰ ملا ہے تو وہ بھی کنسٹرکشن کے شعبے کو جس سے اس خیال بد نے تقویت پکڑی ہے کہ کہیں یہ بھی ریئل اسٹیٹ کی طاقت ہی کا اعتراف تو نہیں۔ استثنیٰ دینا تھا تو کسی ایسی انڈسٹری کو دیا جاتا جو آنے والے دنوں میں پاکستان کی برآمدات میں معاون ہو کر قیمتی زر مبادلہ کاباعث بنتی۔ لیکن جہاں (مبینہ طور پر) سر بمہر لفافوں میں متن رکھ کر کابینہ سے فیصلے لے لیے جاتے ہوں وہاں ریئل اسٹیٹ کو ناراض کرنے کا کوئی سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟
میر اور غالب کا فرق مٹ چکا ہے، ایک دوسرے کو ہمہ وقت سینگوں پر لینے والے طاقتور طبقات جب ریئل اسٹیٹ کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں تو فرشی سلام کرتے اور مبارک سلامت کا سہرا کہتے حاضر ہوتے ہیں۔