کہانی ختم !

اب اس سوال کا جواب دینا ہے کہ افغان فوج کو آخر کس سحر نے ڈھیر کر دیا؟ کس سحر نے طالبان کو یک دم افغانستان کا جیسے کنٹرول تھما دیا ہے؟

یکم اگست کو لی گئی اس تصویر میں افغان نیشنل آرمی کے کمانڈو کو طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی میں پوزیشن سنبھالے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی فائل)

اب حقیقت سے آنکھ مچولی کھیلنا ممکن ہی نہیں رہا ۔ افغانستان کےمتعدد شہروں اور صوبوں میں طالبان کا کنٹرول ہے- جولائی سے شروع کردہ طالبان ملیشیا  کی کامیاب عسکری پیش رفت دنیا بھر میں بےانتہا حیرانگی کا باعث ثابت ہوئی- دنیا جنگ کے لیے طالبان اور افغان فوج کے درمیان ایک سخت مقابلے کے انتظار میں تھی۔

لیکن ہوا وہ جو افغانستان کی حقیقت سمجھنے والے کچھ لوگ سمجھتے تھے۔ لیکن کئی افراد کے لیے افغانستان کے تیزی سے بدلتے حالات ایک بڑاجھٹکا ثابت ہوئے ہیں۔ آخر الفاظ سے تراشے ہوئے پسندیدہ  ’سچ‘ کی مورتی جب ٹوٹتی ہے تو لا تعداد سوال بھی اُٹھتے ہیں۔

آخر افغان فوج کے بارے میں ’سچ‘ کی مورتی کس نے اور کیوں کر تراشی ؟
 جواب واضح ہے۔ امریکہ کی تیار کردہ افغان فوج پر امریکہ سرکار، امریکی سرکار کی تیار کردہ صدر اشرف غنی سرکار، صدر اشرف غنی کے اپنے قریبی سیاسی ساتھیوں اور این ڈی ایس نے تواتر کے ساتھ پر زور انداز میں اپنےاعتماد کا اظہار کیا۔

لیکن اس کے برعکس کچھ امریکی کانگریس، امریکی انٹیلی جنس ادارے، عسکری تجزیہ نگار اور کالم نویس کچھ عرصے سے امریکہ کی تیار کردہ افغان  فوج کی کارکردگی پر سوالات کر رہے ہیں۔

لیکن بندوق کا اور B-52 بمبار کا زور، امریکہ کی فراہم کردہ کابل کی کرسی کا اثر، امریکی پیسے کی عمومی چمک اور ساتھ میں طالبان کے ماضی کے اور کچھ حال کے بھی خوفناک طریقے اور سوچ سے پھیلائی ہوئی نفرت اور پریشانی۔

یہ وہ عناصر  تھے جن کے  نتیجے میں  میڈیا  کی زیادہ تر کہانیوں میں اور دنیا کے متعدد اونچے ایوانوں خاص طور پر واشنگٹن، لندن، دہلی وغیرہ میں ایک عجب اصلیت سے عاری گونج افغان فوج کےحق میں سنائی دیتی رہی۔ سوال کرنے والوں کی بات سننے والے کم ہی تھے خاص طور پر جب تک امریکی فوج موجود رہی۔

اب اس سوال کا جواب دینا ہے کہ افغان فوج کو آخر کس سحر نے ڈھیر کر دیا؟ کس سحر نے طالبان کو یک دم افغانستان کا جیسے کنٹرول تھما دیا ہے؟ پانچ اہم وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ کا تعلق افغانستان میں امریکہ کے اپنے کردار سے ہے۔ امریکی تھنک ٹینک  کارنگی انڈاؤمنٹ کی ایک 2009 کی رپورٹ کے مطابق جن امریکیوں کو اکثر افغان مہمان سمجھتے تھے ان ہی کو وہ اب وہ دشمن سمجھتے ہیں۔

سوال تو پھر پیدا ہوتا ہے کہ دشمن کی تیار شدہ فوج کے ساتھ کون ہو گا؟

کابل کی حکومت کو شاید کچھ حمایت ضرورہو گی لیکن کابل سے باہر کون اُس کے حامی ہیں؟ یہ سوال کئی ناقدین کر رہے ہیں۔

 پہلے سے منسلک دوسری وجہ ایک فوجی کی نفسیات ہے۔ جنگ لڑنا جان دینا تو جب ہی ممکن ہے اگر فوجی اپنے وطن، کسی بڑے مقصد اور کمانڈر کی محبت سے سرشار ہو۔ اور ساتھ میں فوج کا ایک ڈسپلن سے چلنا افغان فوج میں سب ندارد۔

تیسری وجہ افغان فوجیوں کا گاہے بگاہے اپنے  ہتھیار طلبان کو کسی معاوضے یا کسی اور وجہ سے دینا بھی ہے۔ اس کی تفصیل اب امریکی میڈیا  پر ہے۔

آخر اور سب سے اہم طالبان کی ان دنوں کی حکمت عملی۔ اپنے امن جرگے ہر شہر کے بڑوں کے پاس اور کور کمانڈرز کے پاس بھیج کر بغیر جنگ کےمعاملات نبٹائے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ اور یہی ہوا پرانے ملیشیا کمانڈر اسماعیل خان وغیرہ کے ساتھ۔

طالبان نے افغان فوج کی کہانی ختم کی۔ اپنی طالبان کی 90 کی دہائی کی کہانی بہت خوفناک ہے۔ کچھ بدلا یا نہیں وقت بتائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے امریکہ پاکستان کی پوری شراکت داری کے ساتھ پہلے روس سے ویتنام  کی شکست کا بدلہ لینے افغانستان میں شریک ہوا، جن کی مدد سےروس کو شکست دی پھر ان ہی سے منسلک ایک ملیشیا طالبان سے جنگ میں 20 سال کے بعد شکست حاصل کر کے افغانستان سے اب  روانہ ہو ر ہا ہے۔

داستان شکست میں پنہاں لا تعداد غلط پالیسیاں غلط فیصلے غلط شراکت داریاں ہیں۔ یہ افغان فوج پر اربوں ڈالر خرچ کر کےطالبان سے جنگ کے لیے تیار کرنا بھی ان تاریخی غلطیوں میں سے ایک اور بڑی مہنگی غلطی ثابت ہوئی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ