چمپینزیوں کو پہلی بار جنگل میں الکوحل سے بھرپور پھل کھاتے اور بانٹتے ہوئے دیکھا گیا ہے جس پر سائنس دان حیران یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بندر کی نسل کے یہ جانور کیا جان بوجھ کر نشہ آور خوراک تلاش کرتے ہیں۔
مغربی افریقہ کے چھوٹے سے ملک گِنی بِساؤ کے کینتانیز نیشنل پارک میں محققین کی جانب سے نصب کردہ موشن ایکٹیویٹڈ کیمروں نے ایسے مناظر ریکارڈ کیے جن میں چمپینزی زیادہ پکے ہوئے افریقی بریڈ فروٹ (جس میں ایتھنول پایا جاتا ہے) کو 10 مختلف مواقع پر آپس میں بانٹ کر کھاتے ہوئے دیکھے گئے۔
محققین نے سائنسی جریدے ’کرنٹ بیالوجی‘ میں شائع اپنی تحقیق میں لکھا کہ اس غیر معمولی طرزِ عمل سے چمپینزیوں کو وہی سماجی فائدے حاصل ہو سکتے ہیں جو انسانوں کو کسی دعوت یا اجتماع سے حاصل ہوتے ہیں۔
محققین لکھتے ہیں: ’ہم یہاں پہلی بار دستاویزی طور پر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جنگلی چمپینزی ایتھنول کی موجودگی والے زیادہ پکے ہوئے افریقی بریڈ فروٹ کو بار بار کھاتے اور بانٹتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس مشاہدے سے چمپینزیوں کے رویے کے بارے میں مزید جاننے کی ضرورت ہے۔
تحقیق کی شریک مصنف کمبرلے ہاکنگز کا کہنا تھا: ’چمپینزی ہمیشہ اپنا کھانا بانٹنا پسند نہیں کرتے، اس لیے زیادہ پکے ہوئے پھل کے ساتھ یہ رویہ ان کے بارے میں جاننے کے لیے اہم ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا چمپینزی جان بوجھ کر نشہ آور پھل تلاش کرتے ہیں اور ور ان کا جسم اسے کیسے استعمال کرتا ہے؟ یہ رویہ ممکنہ طور پر دعوتوں کے ارتقائی آغاز کی ابتدائی شکل ہو سکتا ہے۔
محققین نے وہ پھل بھی ٹیسٹ کیے جو چمپینزی آپس میں بانٹ رہے تھے جن کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان میں الکوحل کی مقدار 0.6 فیصد تھی۔ چونکہ چمپینزی کی خوراک کا 60 سے 85 فیصد حصہ پھلوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے الکوحل کی تھوڑی سی مقدار بھی ان کے لیے زیادہ ہو سکتی ہے۔
تاہم محققین کا ماننا ہے کہ چمپینزیوں میں اس مقدار سے بھی نشے میں نہیں چڑھتا کیونکہ نشہ ان کے زندہ رہنے کے امکانات کے لیے خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔
موازنہ کے طور پر انسانوں کی جانب سے استعمال کی جانی والی بیئر میں عموماً چار سے چھ فیصد تک الکوحل ہوتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت شاید بندروں میں الکوحل کے استعمال کے رویے کی ’محض ایک جھلک‘ ہو سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف ایکسیٹر سے وابستہ اور اس تحقیق کی شریک مصنفہ اینا بولینڈ نے کہا: ’انسانوں میں الکوحل کا استعمال ڈوپامین اور اینڈورفِنز ہارمونز کے اخراج کا باعث بنتا ہے جس سے خوشی اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ روایتی دعوتوں کی طرح الکوحل کو بانٹنا سماجی تعلقات کو قائم اور مضبوط کرتا ہے۔‘
تحقیق نے چمپینزیوں کے رویے کے بارے میں کئی نئے سوالات بھی اٹھا دیے ہیں۔
سائنس دان اب بھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ الکوحل چمپینزی کے جسم پر کیا اثر ڈالتی ہے۔
بڑھتی ہوئی تحقیق سے یہ اشارے ملے ہیں کہ افریقی بندر نما جانداروں کے مشترکہ اجداد میں ایسی ارتقائی تبدیلی ہوئی تھی جس نے ان کے جسم کو الکوحل کو بہتر طریقے سے ہضم کرنے کی صلاحیت دی ہے۔‘
یہ تمام تحقیق اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ (الکوحل کی موجودگی والے) پکے ہوئے پھل کھانے کا عمل انسانوں اور چمپینزیوں سمیت کئی جاندار اقسام میں بہت پرانا ہو سکتا ہے۔
تازہ ترین دریافت یہ بھی بتاتی ہے کہ ضیافت کی انسانی روایت کی ابتدا ہماری ارتقائی تاریخ میں بہت گہرائی سے جڑی ہوئی ہے۔
© The Independent