پاکستانی وزیر خزانہ کی آئی ایم ایف سے ملاقاتیں، اصلاحاتی اقدامات پر سنجیدگی کا اظہار: ماہرین

وفاقی وزیر خزانہ نے واشنگٹن ڈی سی کے دورے کا آغاز عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک گروپ کی سالانہ موسم بہار 2025 کے اجلاس کے موقع پر متعدد اعلیٰ سطحی ملاقاتوں سے کیا۔

پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے 22 اپریل 2025 کو امریکہ میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے موسم بہار اجلاس سے خطاب کیا (پاکستانی سفارت خانہ امریکہ)

پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ کی عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے حالیہ ملاقات کو ماہرین نے حکومت پاکستان کی جانب سے مذاکرات کے لیے اصلاحات پر سنجیدگی سے اقدامات کرنے کے عزم کو ظاہر کرنا بتایا ہے۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پیر کو اپنے دورہ امریکہ کے افتتاحی روز عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک کے موسم بہار اجلاس کی سائیڈ لائن پر آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات میں سٹاف لیول معاہدہ طے پانے اور نئی سہولت کے آغاز پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ملک میں اصلاحات جاری رکھنے کے تسلسل کی یقین دہانی کروائی۔

وزارت خزانہ کی جانب سے منگل کو جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ نے واشنگٹن ڈی سی کے دورے کا آغاز عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک گروپ کی سالانہ موسم بہار 2025 کے اجلاس کے موقع پر متعدد اعلیٰ سطحی ملاقاتوں سے کیا۔

جہاں ایک جانب وزیر خزانہ نے امریکی محکمہ خزانہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری سے ملاقات میں ملک کے معاشی اشاریوں سے متعلق آگاہ کیا وہیں دوسری جانب آئی ایم ایف کی سربراہ کو وزیر اعظم کی جانب سے پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔

اعلامیے کے مطابق وزیر خزانہ نے امریکی محکمہ خزانہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری سے ملاقات میں ملک کے ٹیکس نظام، توانائی، نجکاری، سرکاری اداروں، پنشن اور قرضوں کے انتظام سے متعلق جاری اصلاحات سے متعلق معاملات پر بات کی۔

وفاقی وزیر خزانہ نے صوبہ بلوچستان میں ریکوڈک منصوبہ کے لیے آئی ایف سی کے ذریعے اڑھائی ارب ڈالر کی قرض فنانسنگ کو سراہتے ہوئے زور دیا کہ مقامی کمیونٹیز کو منصوبے کے معاشی فوائد سے مستفید ہونا چاہیے۔

پاکستان کے وزیر خزانہ کی یہ ملاقاتیں کتنی اہمیت کی حامل ہیں؟ کیا اس سے آئی ایم ایف سے معاہدہ کتنا اثرانداز ہوگا؟ کیا اس سے آئندہ بجٹ پر براہ راست یا بالواسطہ اثر پڑ سکتا ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے معاشی امور کے ماہرین سے بات کی۔

معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر ساجد امین نے وزیر خزانہ کی حالیہ ملاقاتوں کو پاکستان کے عالمی مالیاتی ادارے کے پروگرام کے اقدامات کے لیے سنجیدگی ظاہر کرنا بتایا ہے۔

ڈاکٹر ساجد امین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب دنیا امریکی صدر ٹرمپ کے ٹیرف سے پریشان ہے۔

’پراجیکٹ فنانسنگ، غیر ملکی سرمایہ کاری اور ترقی کے لیے شراکت داری قائم کرنے کے لیے ممالک کے وزرائے خزانہ کی سائیڈ لائن ملاقاتوں کی کافی اہمیت ہے۔‘

ڈاکٹر ساجد کے مطابق پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ ترقیاتی شراکت داروں، کثیر الجہتی اور امریکہ جیسے دوطرفہ شراکت داروں سے ایک پلیٹ فارم پر ملیں۔

’پاکستان کے وزیر خزانہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرمایہ کاروں اور ترقیاتی شراکت داروں کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان اصلاحات کی فراہمی کے لیے پرعزم ہے، خاص طور پر جن پر آئی ایم ایف کے 10 پروگراموں کے تحت اتفاق کیا گیا ہے۔‘

ساجد امین کا کہنا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیر خزانہ واشنگٹن کو یہ واضح پیغام دینے کا موقع لے رہے ہیں کہ پاکستان مذاکرات کرے گا اور اقدامات کرے گا، جن میں پاکستان کے ساتھ امریکی تجارتی خسارے میں اضافی کپاس اور سویا بین درآمد کرنا شامل ہے۔

معاشی ماہر ڈاکٹر خالد ولید نے حالیہ ملاقاتوں کو ’پاکستان کو بطور اصلاحات یافتہ ریاست کی نمائندگی کرنے کا پیغام‘ کے مترادف قرار دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان حالیہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان نے کئی محاذوں پر معاشی بحالی کی جانب اہم پیش رفت کی ہے۔

’وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی آئی ایم ایف سربراہ سے ملاقات محض رسمی گفتگو نہیں تھی بلکہ یہ اس پیش رفت کا اعتراف بھی تھا جو گزشتہ دو سال کے دوران استحکام کی جانب ہوئی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مہنگائی کی شرح کم ترین سطح پر آ چکی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بحال ہو رہے ہیں اور مالیاتی منڈیوں میں اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خطرات ابھی ٹلے نہیں۔ داخلی سیاسی دباؤ، امریکہ کی طرف سے عائد ٹیرف اور موسمیاتی چیلنجز پاکستان کی معاشی صحت ابھی بھی خطرے میں ہیں۔‘

خالد ولید کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں کی جانب سے ایگریکلچر انکم ٹیکس میں ترامیم، ٹیکس مساوات کی طرف ایک نیا قدم ہے، تاہم مؤثر نفاذ اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

’وزیر خزانہ کی جانب سے ورلڈ بینک کے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک پر زور دینا اس بات کا اشارہ ہے کہ ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ ہم آہنگی حکمت عملی کا حصہ بن چکی ہے۔‘

خالد ولید کے مطابق موسمیاتی خطرات کے تناظر میں، پاکستان کا RSF پروگرام کے تحت لچک پیدا کرنے کے اقدامات پر زور دینا ایک بہتر حکمت عملی ہے۔ پانی کے وسائل کے مؤثر استعمال، اور ڈیزاسٹر فنانسنگ میں وفاقی و صوبائی ہم آہنگی جیسے اہداف نہ صرف فوری بلکہ دیرپا حل فراہم کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس ساری گفتگو میں ایک بنیادی نکتہ ابھر کر سامنے آتا ہے: پاکستان اب صرف مالیاتی استحکام نہیں، بلکہ پائیدار اور شراکتی ترقی کے نئے ماڈل کی تلاش میں ہے، جہاں حکومت ریفری ہو، کھلاڑی نہیں۔‘

معاشی امور پر نظر رکھنے والے صحافی مہتاب حیدر سمجھتے ہیں کہ وزیر خزانہ کے آئی ایم ایف کے ساتھ گذشتہ روز ہونے والے اجلاس میں آئندہ بجٹ میں ٹیکسز اور اخراجات سے متعلق یقین دہانیاں کروائی ہوں گی۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ اگلے بجٹ کے لیے پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ مشاورت کرنی ہے اور اس کی منظوری کے بعد حکومت اسے پیش کرے گی۔

’ایک مسئلہ ہے کہ اس کی بورڈ سے منظوری کب ہوگی اور دوسرا بجٹ میں آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان ٹیکس اور اخراجات سے متعلق کیا اتفاق ہوتا ہے، جن کی یقین دہانی اس ملاقات میں آئی ایم ایف کو بھی کروائی گئی ہوں گی کہ جو ادارہ کے ساتھ جڑی چیزیں ہیں وہی کریں گے۔‘

پاکستان سال 1950 سے عالمی مالیاتی ادارے کا رکن ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو مختلف پروگراموں کے ذریعے مالی مدد فراہم کی ہے، بشمول توسیع فنڈ سہولت، جو ستمبر 2013 سے جاری ہے۔

پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کا حالیہ پروگرام 37 ماہ کا توسیع انتظام ہے جس کا مقصد پاکستانی معیشت کو مستحکم کرنا، ترقی کو فروغ دینا اور متاثرہ افراد کی حفاظت کرنا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت