انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر فائرنگ، 20 سے زیادہ اموات کا خدشہ: پولیس

ایک پولیس افسر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا: ’اب تک کم از کم 24 لوگ مارے جا چکے ہیں۔‘ تاہم سرکاری طور پر اموات کی تعداد ابھی نہیں بتائی گئی۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں منگل کو ایک اعلی پولیس افسر کا کہنا ہے کہ سیاحوں پر مسلح افراد کی فائرنگ سے 20 سے زیادہ افراد کی اموات کا خدشہ ہے۔

انڈین حکام کا کہنا ہے کہ یہ کشمیر کے متنازع خطے میں کئی سالوں میں ہونے والا بدترین حملہ ہے۔

ایک اعلی پولیس افسر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا: ’اب تک کم از کم 24 لوگ مارے جا چکے ہیں۔‘ تاہم سرکاری طور پر اموات کی تعداد ابھی نہیں بتائی گئی۔

پولیس ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ یہ واقعہ پہلگام میں پیش آیا جو کہ سری نگر سے 90 کلو میٹر دور ایک مشہور سیاحتی مقام ہے اور حالیہ برسوں میں شدت پسندی میں کمی کے بعد ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کر رہے ہیں۔

ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ زخمیوں کو قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

حملے کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایکس لکھا: ’اموات کی تعداد کا اندازہ لگایا جا رہا ہے لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ حملہ حالیہ برسوں میں عام شہریوں پر ہونے والے کسی بھی حملے سے بڑا ہے۔‘

روئٹرز کے مطابق ’کشمیر ریزسٹنس‘ نامی ایک نسبتاً غیر معروف شدت پسند گروپ نے سوشل میڈیا پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے الزام لگایا کہ خطے میں 85 ہزار سے زائد ’باہر کے لوگوں‘ کو بسایا جا رہا ہے جس سے خطے میں آبادیاتی تبدیلی آ رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گروپ نے خبردار کیا: ’اب جو بھی غیر قانونی طور پر کشمیر میں بسنے کی کوشش کرے گا، تشدد کا نشانہ بنے گا۔‘

انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی مقامی حکومت نے اس ماہ اسمبلی میں بتایا تھا کہ گذشتہ دو سالوں میں انڈیا کے مختلف علاقوں سے تقریباً 84 ہزار افراد کو خطے میں ڈومیسائل حقوق دیے گئے ہیں۔

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے ایکس پر کہا: ’اس بزدلانہ حملے کے پیچھے جو بھی ہیں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انہیں بخشا نہیں جائے گا! ان کا گھناؤنا منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارا عزم غیر متزلزل ہے اور مزید مضبوط ہوگا۔‘

کشمیر، جس پر انڈیا اور پاکستان دونوں دعویٰ کرتے ہیں، 1989 سے جاری بھارت مخالف مسلح تحریک کے باعث شدید کشیدگی اور خونریزی کا شکار رہا ہے۔

اب تک دسیوں ہزار لوگ مارے ہو چکے ہیں تاہم حالیہ برسوں میں تشدد میں کچھ کمی آئی ہے۔

انڈیا نے 2019 میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اسے دو وفاقی علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا تھا۔

اس فیصلے کے بعد مقامی حکام کو یہ اختیار حاصل ہو گیا کہ وہ باہر سے آنے والوں کو رہائش اور زمین خریدنے کے حقوق دیں۔

اس اقدام سے پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہو گئے۔ یہ تنازعہ دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان کئی جنگوں اور مستقل کشیدگی کی وجہ رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا