طالبان کے افغانستان کے نصف سے زیادہ صوبوں پر قبضے کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ طالبان نے اگر کابل پر قبضہ کر لیا تو وہاں پر حکومتی نظام کیسے چلائیں گے؟
یعنی جس طرح ایک جمہوری نظام میں صدر، وزیراعظم اور کابینہ ہوتے ہیں تو طالبان کا حکومتی ڈھانچہ کیسا ہو گا؟
اسی طرح ہم یہ بھی کوشش کریں گے کہ اس سوال کا جواب بھی اس رپورٹ میں دے سکیں کہ افغان طالبان نے 90 کی دہائی میں کابل پر قبضہ کرنے کے بعد 1996 سے 2001 تک حکومت کیسے بنائی تھی اور جمہوری نظام میں جس طرح عوام سے ووٹ کے ذریعے رائے لی جاتی ہے تو طالبان کی طرز حکومت میں کیا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔
طالبان نے افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 22 صوبوں کے دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے اور ابھی بھی دیگر صوبوں میں لڑائی جاری ہے۔
طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل سے تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع لوگر صوبے پر بھی قبضہ کر رکھا ہے اور اس صوبے کی کابل سے قریب واقع ہونے کی وجہ سے مبصرین سمجھتے ہیں کہ کابل پر قبضہ کرنے کے لیے یہ صوبہ بہت اہم ہے جبکہ کابل سے متصل تقریبا تمام صوبے اب طالبان کے قبضے میں ہیں۔
لوگر سے کابل تک اہم شاہراہ پر گذشتہ رات ایک نا معلوم نگرانی کرنے والا جہاز بھی دیکھا گیا۔ فلائٹ ریڈار نامی ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک نگرانی کرنے والا جہاز جس کی فلائٹ ریڈار پر مزید تفصیل موجود نہیں، مسلسل لوگر سے کابل تک جانے والی شاہراہ کے اوپر چکر لگاتا رہا جو صبح تک وہاں پر موجو د رہا۔
کابل حکومت کی جانب سے اس جہاز کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ جہاز کس ملک کا تھا اور کیا یہ واقعی شاہراہ کی نگرانی کر رہا تھا۔
اسی طرح طالبان نے افغانستان کے شمال میں واقع تقریباً تمام صوبوں پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ اب جنوب اور مغرب کے صوبوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
افغان حکومت کے مطابق وہ مختلف صوبوں میں طالبان کی پیش قدمی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ گذشتہ روز کابل میں صدر اشرف غنی کی صدارت میں ہونے والے ایک میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز طالبان کے خلاف شدید مزاحمت کریں گی اور ان کی پیش قدمی کو روکنے کی کوشش کریں گی۔
طالبان حکومت کیسے بنائیں گے؟
دنیا کی تمام جمہوری حکومتوں میں ایک آئینی نظام ہوتا ہے جس کے تحت حکومتیں بنتی ہے۔ پاکستان کی مثال لیجیے تو یہاں پر انتخابات کے بعد صوبائی اور وفاقی حکومتیں بنتی ہے اور بعد میں وزیر اعظم، صدر، صوبائی اور وفاقی کابینہ کا انتخاب ہوتا ہے۔
جمہوری حکومتوں میں کچھ ممالک میں صدارتی جبکہ کچھ میں پارلیمانی طرز حکومت ہوتا ہے ۔ صدارتی نظام میں صدر کے پاس اختیار زیادہ ہوتا جبکہ پارلیمانی حکومت میں وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہوتا ہے جبکہ صدر ریاست کے سربراہ کے طور پر کام کرتا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم طاہر خان افغان امور کے ماہر ہے اور طالبان کی سابقہ حکومت کو بھی قریب سے دیکھ چکے ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ طالبان نے جب 90 کی دہائی میں کابل پر قبضہ کر دیا تو وہاں پر بعد میں حکومت کا قیام کیسے ہوا؟
اس سوال کے جواب میں انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کابل پر قبضے کے بعد افغانستان میں دو قسم کا نظام تھا۔ جس میں ایک کو ’امارات‘ کہا جاتا تھا یعنی طالبان کے سربراہ ملا عمر اس کی سربراہی کرتے تھے اور ان کو امیر المومنین کہا جاتا تھا۔‘
طاہر خان نے بتایا کہ ’ملا عمر کی جانب سے ہدایت نامہ جس کو فرمان کہا جاتا تھا، جاری ہوتا تھا اور اسی پر عمل ہوتا تھا۔‘ (یعنی مخلتف حکومتی فیصلوں کے حوالے سے ملا عمر کا فرمان اہمیت کے حامل تھا)۔
اسی طرح طاہر خان کے مطابق دوسرے نظام میں ‘رئیس الوزرا ‘ یعنی وزرا کے شوریٰ کے ایک سربراہ ہوتے تھے اور اس وقت یہ ذمہ طالبان کے رہنما ملا ربانی کو دی گئی تھی جن کی حیثیت وزیر اعظم جیسے تھی اور ان کے ساتھ ان کے معاونین اور کابینہ بھی بنائی گئی تھی۔
طالبان نے اگر کابل پر قبضہ کر لیا تو وہ حکومت کیسے بنائیں گے؟
اس سوال کے جواب میں طاہر خان نے بتایا کہ ’طالبان ’اسلامی امارت ‘ ہر ہی زور دیتے ہیں اور قطر معاہدے میں بھی ‘طالبان‘ کا نام نہیں بلکہ ’اسلامی امارت افغانستان‘ کا ذکر موجود ہے۔‘
تاہم طاہر خان کے مطابق معاہدے میں جہاں ’اسلامی امارت‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بریکٹ میں ایک لائن ’امریکہ اسلامی امارات کو تسلیم نہیں کرتا‘ لکھا گیا ہے لیکن طالبان نے امریکہ کو ’امارات اسلامی‘ لکھنے پر مجبور کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’اب جن صوبوں کے مراکز پر پر طالبان نے قبضہ کیا ہے وہاں کے گورنرز اسلامی امارت کا لفظ استعمال کررہے ہیں اور ان کے دفاتر کے اندر سفید رنگ کا جھنڈا بھی نظر آتا ہے جس کا مطلب ہے کہ طالبان اسلامی امارات کے نام استعمال کرنے پر ہی اصرار کریں گے۔‘
طاہر خان کا کہنا ہے کہ ’طالبان تو امارات اسلامی لفظ استعمال کرنے پر اصرار کریں گے لیکن کئی ممالک نے طالبان پر یہ واضح کیا ہے کہ وہ اسلامی امارات کے اصطلاح کو تسلیم نہیں کریں گے۔ لیکن یہ وقت بتائے گا کہ طالبان اس اصطلاح کو استعمال کرنے پر زور دیں گے یا دنیا کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس اصطلاح کے استعمال سے پیچھے ہٹیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور میں مقیم افغان امور پر نظر رکھنے والے صحافی شمیم شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے بغیر کسی انتخابات اور عوامی رائے لینے کی حکومت بنائی اور جتنے بھی فیصلے کیے جاتے تھے تو وہ ملا عمر کے ہدایات پر کیے جاتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’طالبان کے پارلیمان کے ارکان کو بھی ملا عمر کے ہدایت پر سیلیکٹ کیا جاتا تھا اور انہیں کے حکم پر ہٹایا جاتا تھا۔ افغانستان کے قومی اسمبلی کو ’لویہ جرگہ‘ (ہاؤس آف ایلڈرز) اور صوبائی اسمبلی کو ’اولسی جرگہ‘ (ہاوس اف پیپلز) کہتے ہیں۔‘
طاہر خان نے بتایا کہ ’طالبان کے دور حکومت میں زیادہ تر وہ مختلف مسائل پر افغانستان کے علما کے ساتھ جرگے کرتے تھے اور ان سے مشورے لیتے تھے جس طرح اسامہ بن لادن کے ایشو پر علما کے ساتھ مشورہ کیا گیا تھا اور اسی طرح 9/11 کے بعد بھی طالبان نے علما کے ساتھ مشاورت کی تھی۔‘
طالبان کابل پر قبضے کے بعد کیا کریں گے؟
اس وقت تک طالبان نے افغانستان کے 22 صوبوں کے مراکز پر قبضہ کر لیا ہے۔ طاہر خان نے بتایا کہ ’موجودہ صورت حال میں طالبان کے پالیسیوں کو دیکھ کر اس بات کا قوی امکان ہے کہ طالبان کے موجودہ سربراہ شیخ ہبت اللہ کو ’امیر المومنین ‘ چنا جائے گا جبکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طالبان کے رہبری شوریٰ (جو اآج کل طالبان کے اہم فیصلے کرتے ہیں) کے ارکان سے ایک با اختیار فورم بنایا جائے اور اور بطور کابینہ کام کریں۔‘
طالبان کے لیے کتنا مشکل ہو گا کہ وہ حکومت بنا سکیں؟
اس کے جواب میں طاہر خان نے بتایا کہ ’طالبان کے لیے بہت مشکل ہو گا کہ وہ دیگر ممالک کے بغیر موثر حکومت کر سکیں اور طالبان نے بار بار یہ بھی کہا ہے کہ طالبان افغانستان پر مکمل کنٹرول نہیں چاہتے بلکہ دوسروں کو بھی شراکت دار بنائیں گے لیکن اس حوالے سے ابھی تک طالبان کی جانب سے کچھ نہیں کہا گیا ہے کہ یہ کیسے ہوگا اور کون سے شراکت دار طالبان کو قابل قبول ہوں گے۔‘