افغانستان کے نئے حکمران طالبان نے بقول پاکستانی میڈیا یہ عندیہ دیا تھا کہ گذشتہ جمعے کو وہ اپنی نئی حکومت کا اعلان کر دیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا جس کی کئی وجوہات اور معاملات ہو سکتے ہیں۔
حکومت بنانے کے لیے ایک طرف دنیا کی یہ توقع ہے کہ اس بار افغانستان میں ہر قسم کی جنگ و جدل ختم ہونی چاہیے۔ ساتھ میں خاص طور پر اشرف غنی کی سابق حکومت یا اس سے پہلے کی حکومتوں کے نمائندے بھی اس میں شامل ہونے چاہییں۔
طالبان کے چند سرکردہ لوگوں نے سابق صدر حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار سے بھی ملاقات کی اس کے نتیجے میں یہ امید بندھی تھی کی طالبان ایک نمائندہ حکومت کا اعلان کریں گے۔ لیکن دو اہم پہلووں کی وجہ سے حالات کچھ پیچیدگی کا شکار ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
جو امیدیں شمالی گروپ مرحوم احمد شاہ مسعود کے بیٹے سے تھی وہ بھی ٹوٹتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ پنج شیر میں جنگ زور و شور سے جاری ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ جمعہ کو حکومت کے اعلان کا ان کی طرف سے نہیں کہا گیا یہ تو بات کرنے والوں کی ذہنی اختراع ہے۔ بس ان حالات میں جہاں ابھی تک افراتفری پھیلی ہوئی ہے تو یہ باتیں تو ہوں گی۔ کبھی کچھ اور کبھی کچھ۔
یہاں سب انسانی حقوق، حقوق نسواں اور قانون کے مطابق حکومت کو اسے چلانے کی بات کرتے ہیں۔ تمام ہمسایہ ممالک جن میں چین روس، ترکی، ایران اور پاکستان بھی شامل ہیں وہ طالبان سے امن کی توقع رکھتے ہیں اور اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس خطے میں دہشت گردی کی وبا اسی اور نوے کی دہائی میں شروع ہو کر خونی عروج پر نہ صرف ادھر تک پہنچی لیکن دنیا کے کئی ممالک کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس پر اگر یہ کہا جائے کہ ذمہ داری یقینا طالبان کی نہیں لیکن بڑے بڑے ممالک جن میں امریکہ، برطانیہ اور بھارت شامل رہے ایسی پالیسی بنانے میں جس میں سفارت کاری کم، گفت شنید کم اور جنگجو ماحول زیادہ بنانے میں کردار ادا کیا گیا۔
یہ تاریخ پرانی تاریخ تین دہائیوں سے کبھی زیادہ اور کبھی کم کبھی جنوبی امریکہ میں کبھی شام میں اور کبھی کمبوڈیا، لاؤس دہرائی گئی۔ ایک جنگی ماحول ان پالیسیوں کی وجہ سے بنا اب دنیا بظاہر اس سب سے تنگ ہے۔ اب تو قدرتی آفات نے بھی انسان کو اور اس عرض زمین کو میں لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انسان کی بے بسی اب کچھ زیادہ ہی عیاں ہے اور پھر یہ سوپر پاور اور بڑی طاقتوں کی کہانی بھی اب کچھ اور دکھائی دیتی ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی افواج جدید ترین اسلحے سے لیس افغان طالبان کو نہ ہرا پائیں اور آخر کار انہوں نے ہار کر افغانستان سے دوڑ لگا دی۔
یہ تو کہانی رہی ہے 20 سال کی امریکی اور بیشتر مغربی ممالک کی جو نیٹو میں شامل رہے ان کی پسپائی کی لیکن یہ بذات خود افغانستان کی اور افغانستان کے عوام کی بہتر کل کی نشاندہی نہیں کرتی۔ کل کی بہتری تو افغانستان کو بہتر جلانے سے ہے۔
افغانستان کو چلانے کا بیڑا تو اب طالبان نے اٹھایا ہے۔ پہلا امتحان تو حکومت بنانے کا ہے اور اسے بنانے کے مسائل اس وقت کی نظر آ رہے ہیں۔ نئی کابینہ میں ظاہر ہے تمام طالبان زیادہ شمولیت چاہتے ہیں لیکن کابینہ میں سب کے لیے جگہ ہی کہاں۔
حکومت سازی میں طالبان کو تین بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ نمبر ایک تمام کی شمولیت۔ طالبان میں ان کے رہبر یقینا ایک ہیں اور بہت حد تک تمام سیاسی دھڑوں کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے انعام کا اور شاباش کا لیکن طالبان کے سرکردہ لیڈر مختلف شوری میں موجود ہیں۔ مثلا کوئٹہ، پشاور، کراچی اور پھر ایران میں خراسان کی شوری۔ اس کے علاوہ طالبان کے کرتا دھرتا کمانڈر بھی ہیں اور ان میں سے بھی لوگوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا جائے۔ یہ موقع اب توقعات کو سمجھ داری سے اور خوش اسلوبی سے سنبھالنے کا ہے۔
یہ کام یقیناً مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ طالبان میں کثیر تعداد پشتون کی ہے لیکن تاجک بھی ہیں، ترکمن اور اور ازبک بھی ہیں۔ ان سب کو بھی کسی حد تک نی کابینہ میں نمائندگی دینی ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرا معاملہ طالبان کی مخالف سیاسی قوتوں کا ہے۔ یقینا طالبان نے سابق صدر کرزئی، گلبدین حکمت یار، عبداللہ عبداللہ، حامد گیلانی وغیرہ کے ساتھ ساتھ احمد مسعود اور رشید دوستم جیسے مخالفین سے بات چیت کے معاملات کھلے رکھے ہیں لیکن بہرحال ان لوگوں سے جن سے سال ہا سال دشمنی رہی ایک دوسرے کا قتل و غارت ہوا اور اب طاقت کے بٹوارے کی بات آسان نہیں ہو سکتی۔
طالبان کا یقینا پلڑا بہت بھاری ہے لیکن طاقت اور قوت کے حوالے سے کیا یہ طاقت اور قوت کل افغانستان اور یہاں کے لوگوں کے لیے بذات خود بہتری کا سامان مہیا کرسکتی ہے؟ طالبان اس سوال سے کنارہ کشی اختیار نہیں کر سکتے ہیں۔
تیسرا معاملہ بھی کابینہ سے جڑا ہوا ہے۔ یہ سوال طالبان کے مستقبل کا ہے۔ معاملہ سیدھا ہے اگر طالبان اپنی طاقت اور اپنی جیت سے آگے بڑھ کر نہیں سوچیں گے کو شاید امن اور چین افغانستان کی سرزمین پر ابھی نہیں لوٹے گا۔
یہ بات درست ہے کہ نوئے کی دہائی کے مقابلے میں آج افغانستان کے ہمسائے اس ملک میں مزید خانہ جنگی نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ خانہ جنگی افغانستان میں ہوگی لیکن ان ممالک میں اس کا منفی اثر ہوگا اور یقینا دہشت گردی کو ختم کرنا اور بھی مشکل ہوگا۔
لیکن اس کے باوجود داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیمیں افغانستان میں جنگی ماحوال مہیا کر سکتی ہیں۔اس کی شروعات کابل ایئرپورٹ کے دھماکے سے میں بڑی تعداد میں لوگ مارے جانے سے سب دیکھ چکے ہیں۔ اب کتنی سمجھ داری اور بردباری کے ساتھ طالبان حکومت سازی کا اہم اور مشکل کام سرانجام دیتے ہیں اس سے افغانستان کے لوگوں کو اور دنیا بھر کو طالبان کی حکمت اور سمجھ اور یقینا دوراندیشی کا اندازہ ہو جائے گا۔
آخر میں طالبان خود ہی فیصلہ کریں گے۔ وہ ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں۔ پاکستان کے آئی ایس آئی چیف کی آؤ بھگت تو ضرور کی ہوگی لیکن مرضی اب افغان طالبان اپنی ہی کریں گے۔