کیا طنطنہ تھا جب پی ڈی ایم رجز پڑھا کرتی تھی ’مولانا آ رہا ہے‘ اور کیا بے بسی ہے، اندوہ غم نے اسے چاٹ کھایا ہے ۔ اب معلوم نہیں پڑ رہا مولانا آ رہا ہے یا مولانا جا رہا ہے۔
ایک بھرم تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن ہماری سیاست کے سب سے بالغ نظر رہنما ہیں۔ اب وہ نہر والے پل پر بیٹھ کر قبلہ آصف زرداری کو ’ اڈیک‘ رہے ہیں اور ان کی بالغ نظری کا سارا بھرم نہر میں بہہ گیا ہے۔ نہر کے دوسرے کنارے سے بلاول زرداری صاحب کی صدا آ رہی ہے: مجھے وفاق ہی نہیں پنجاب میں بھی حکومت چاہیے۔ راز کی یہ بات تو اب مولانا اور ان کی بصیرت ہی بتا سکتی ہیں کہ چھوٹے زرداری صاحب اپنے ووٹر سے مخاطب ہیں یا اپنی نومولود ’نیک چلنی‘ کا اعزازیہ طلب کر رہے ہیں۔
مولانا کی قادر الکلامی میں کلام نہیں۔ وہ خوبیوں سے مالا مال ہیں۔ ان سے مگر غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے خود کو سچ مچ کا ’صدر‘ سمجھ لیا اور اور جے یو آئی کی طرح پی ڈی ایم کے بھی قائد محترم بن بیٹھے۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جمہوریت اور آئین کی جدوجہد ایسے ہی ہے جیسے جون میں برف باری ۔ یہ دریا کے دو کنارے ہیں جو نہ کبھی ملے نہ ملیں گے۔ ہر دو جماعتوں میں جمہوریت اور آئین کی بات برائے وزن بیت ہوتی ہے۔ مطلع اور مقطع مفادات میں ہی لپٹا ہوتا ہے۔
پی ڈی ایم میں سرے سے کوئی قدر مشترک تھی ہی نہیں۔ یہ انجمن مفادات باہمی تھی۔ ایک چھت تلے شرکا آ کر بیٹھتے تو تھے لیکن سب کو یہ خوف دامن گیر ہوتا تھا کہ جس نے آنکھ جھپکی، وہ گیا۔ نواز شریف صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے سیاست کو تجارت بنا رکھا ہے۔ حساب سودو زیاں کے بغیر وہ چوکتے بھی نہیں۔ جمہوریت سے ان کوکو ئی رہ و رسم ہوتی تو اپنی جماعت میں اسے رائج کیا ہوتا۔ وہ جمہوری سلطان تھے جن کی کابینہ کو بھی ان سے ملاقات کی سعادت کے حصول میں مہینوں لگ جاتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے تحریک چلانا ہوتی تو ملک میں رہتے۔ لیکن ان کا بیانیہ اصل میں ’بیعانیہ‘ ہے۔ فی الوقت سیاست میں ان کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح دوسروں کو استعمال کریں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت قربان کرے، مولانا کے کارکن سڑکوں پر نکلیں اور اس سے اگر ماحول بدلنے لگے تو شہباز شریف اپنی ’معاملہ فہمی‘ کے ساتھ ’گڈ کاپ‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے مال غنیمت کے حصول کو یقینی بنا لیں۔ مریم نواز صاحبہ کے جارحانہ رویے کا تعلق بھی پارٹی کی داخلی قیادت کے جملہ حقوق محفوظ کرنے سے ہے، قومی سیاست سے نہیں۔ قومی سیاست میں ان کی عزیمت کی کل متاع یہ ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں ایکسٹینشن کا ووٹ یہ اس وارفتگی سے دے آئے کہ حزب اقتدار بھی انہیں رشک بھری نگاہوں سے دیکھنے لگ گئی۔
آٹھویں ترمیم کے بعد صوبے بڑی حد تک خود مختار ہو چکے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ ایسے میں آصف زرداری نواز شریف کی جنگ کیوں لڑیں؟ پیپلز پارٹی نواز شریف کی لڑائی میں اپنا اقتدار کیوں قربان کرے؟ جو کچھ نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا، یہ سب پیپلز پارٹی کی اجتماعی یاد داشت کا حصہ ہے۔ کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کام نکل جانے کے بعد میاں صاحب نے پھر یہی کرنا ہے۔
پرانی باتوں کو تو نواز شریف صاحب کا ’دور جاہلیت‘ قرار دے کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن مشرف دور کی جلاوطنی کے بعد تو میاں صاحب ایک صاحب بصیرت رہنما بن چکے تھے۔ یہ صاحب بصیرت رہنما بنفس نفیس پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف غداری کی فرد جرم لے کر سپریم کورٹ میں پیش ہوا تھا۔ سپریم کورٹ ہی کے فیصلے پر گیلانی حکومت کا خاتمہ ہوا تو میاں صاحب کا موقف تھا، عدالت کا حکم سر آنکھوں پر، ایسی 10 حکومتیں بھی جائیں تو گوارا ہے۔ اپنی بار معیارات بدل کیوں جاتے ہیں؟
میاں صاحب کی سیاست بے رحم قسم کے حساب سودوز یاں کے سوا کچھ نہیں اور زرداری صاحب سے بہتر اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا۔ زرداری صاحب کبھی بھی پی ڈی ایم میں نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ نہیں تھے۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ میاں صاحب کو ہر ممکن حد تک وہاں پہنچا دیا جائے جہاں ن لیگ کچھ وقت کے لیے بند گلی سے لوٹ نہ سکے اور پیپلز پارٹی اس دوران اپنے لیے سیاسی امکانات سمیٹ سکے۔ چنانچہ بلاول صاحب جب فرماتے ہیں کہ مجھے وفاق میں ہی نہیں پنجاب میں بھی حکومت چاہیے تو یہ کوئی راز کی بات نہیں ہوتی کہ الفاظ کے پردے میں یہ التجا کس سے کی جا رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو دونوں بڑی جماعتوں نے استعمال کیا۔ مولانا دھرنا دینے اسلام آباد پہنچے تو اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ نواز شریف کو ملک سے جانے کی اجازت مل گئی۔ سوال صرف اتنا ہے وہ سادگی میں استعمال ہوئے یا وہ بھی اپنے حساب سودوزیاں میں مزے سے ہیں۔
مولانا ’جا رہے ہیں‘ لیکن کیا مولانا خالی ہاتھ جا رہا ہے ؟