یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کریں
روایت یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمن میدان سیاست کے شہسوار ہیں اور عمران خان کو تو سیاست آتی ہی نہیں۔ لیکن عالم یہ ہے کہ مولانا کے سارے مورچے عمران خان نے فتح کر لیے۔ سوال یہ ہے کہ مولانا کے پاس باقی کیا بچا؟
سیاست میں تاثر حقیقت سے ز یادہ طاقتور ہوتا ہے۔ تاثر کے میدان میں عمران خان نے اپنے سارے سیاسی اور نظریاتی حریفوں کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ ’یہ سارے چور ہیں‘ کی بنیاد پر وہ حکومت میں آئے۔ ’چوروں نے خزانہ خالی کر دیا تھا، عمران اب کیا کرے؟‘ کی بنیاد پر انہوں نے طرز حکومت کی خامیوں کو جواز فراہم کیا۔ اور اب اقتدار ڈھل رہا ہے تو ہر وہ چیز جو ماضی میں حکمرانوں کے خلاف فرد جرم بنا کرتی تھی، عمران خان نے اپنی قوت بنا لی ہے۔ وقت پر انتخابات ہوں یا وقت سے پہلے، عمران کو درپیش خطرات ہی اب ان کا پرچم بن چکے ہیں۔
جے یو آئی کے عمران مخالف روایتی بیانیے کا سب سے مہلک تیر عمران کی اسلام دوستی پر سوال تھا۔ اس تیر کو بے رحمی سے عمران خان کے خلاف استعمال کیا گیا۔ لیکن اب تیر ٹوٹ چکا اور کمان بوسیدہ ہو گئی۔ عمران خان اس وقت مسلم دنیا کے جذبات کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اسلامو فوبیا ہو یا مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی توہین کا معاملہ ہو، عمران خان مسلم دنیا کے واحد حکمران ہیں جنہوں نے مسلمانوں کا مقدمہ عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ آپ انہیں ’گفتار کا غازی‘ قرار دے سکتے ہیں لیکن مذہب کی بنیاد پر میدان سیاست میں اب عمران کے خلاف فرد جرم مرتب نہیں کی جا سکتی۔ اسلام کا پرچم اب صرف مذہبی سیاست کے پاس نہیں، عمران خان کے پاس بھی ہے۔
قوم فروشی کا طعنہ بھی یہاں قریب ہر حکمران کو ملا۔ ہر حکمران اور ہر اپوزیشن کو خوب معلوم ہے کہ امریکہ کا ساتھ دینا ایک ناگزیر برائی ہی سہی لیکن کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اہل اقتدار نے ہمیشہ غیر مقبول مگر ناگزیر فیصلے کیے اور میدان سیاست میں اپنی کردار کشی کی صورت میں ان کی قیمت ادا کی۔ عمران خان مگر اس تکلف کے قائل نہیں۔ امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے تو عمران خان نے دوٹوک انداز سے کہہ دیا ہے کہ اڈے نہیں دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران خان کا Absolutely not رجز کی طرح دہرایا جا رہا ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ حکومت ناگزیر فیصلے کر لیتی تھی اور پھر اس بے چاری کی مجبوری کو مختاری قرار دے کر اس کی باجماعت کردار کشی کی جاتی تھی کہ قومی مفاد بیچ دیا اور قومی حمیت کا سودا کر دیا۔ عمران خان نے مگر مسکرا کر کہہ دیا ہے کہ Absolutely not۔ وہ کسی ناگزیر فیصلے کی قیمت دینے کو تیار نہیں۔ چنانچہ اب ان کی کردار کشی نہیں ہو رہی، اب پارلیمانی قیادت کو صورت حال پر بریفنگز دی جا رہی ہیں۔ اب جو بھی فیصلہ ہو گا اس کی اونر شپ ساری سیاسی قیادت سمیت سب کو لینی ہو گی۔ اکیلا وزیر اعظم ملامت کے کوڑے سے پیٹھ ہری کروانے کو تیار نہیں۔ آپ چاہیں تو اسے غیر ذمہ دارانہ پاپولزم کہہ لیں لیکن عوام میں اسے قومی غیرت کا عنوان دیا جا رہا ہے اور اس غیرت اور حمیت کا پرچم عمران خان کے ہاتھوں میں ہے۔
قومی شناخت کا پرچم بھی عمران خان نے تھام رکھا ہے۔ بجائے اس کے کہ حزب اختلاف ان پر غیر ملکی ثقافت سے مرعوبیت کا الزام عائد کرے اور انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دے کہ ان کے تو بچے بھی ملک سے باہر ہیں الٹا، عمران خان نے قوم کو بتانا شروع کر دیا ہے کہ انگریزی بولنا اور انگریزی لباس پہننا سافٹ امیج کی علامت نہیں، مرعوبیت کی نشانی ہے۔ پہلی بار کسی حکمران نے اردو زبان کو دفتری سطح پر رائج کرنے کی جزوی ہی سہی، کوشش تو کی ہے۔
پاکستانیت کا پرچم ہی عمران کے ہاتھ میں نہیں ہے، احساس کمتری کے بت پر گرز بھی وہی مار رہے ہیں۔ جس بانکپن سے اپنے ملک، اپنی ثقافت، اپنی روایات کو وہ ’اون‘ کر رہے ہیں، ناقدین بھلے اسے دکھاوا قرار دے لیں لیکن نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے یہ حیران کن سرپرائز سے کم نہیں۔
نیم خواندہ معاشرے میں کارکردگی فیصلہ کن نہیں ہوتی، فیصلہ کن یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے جذبات کے تار ہلانے میں کس نے کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستانی معاشرے کے تار مذہب، قومی غیرت، اور حریت سے ہلتے ہیں۔ یہ تینوں عنوانات آج سے پہلے وزیر اعظم پر عائد فرد جرم کا عنوان ہوتے تھے۔ آج یہ وزیر اعظم کا پرچم بن چکے ہیں۔ عمران خان اس قوم کی نفسیاتی مبادیات کو سمجھ گئے ہیں۔ کوئی یہ سمجھتا ہے انہیں سیاست نہیں آتی تو اس سے بڑی سادہ لوحی کوئی نہیں۔
اسلام کا پرچم بھی عمران کے پاس، قومی غیرت کا جھنڈا بھی انہی کے پاس، احساس کمتری توڑنے والا گرز بھی انہی کے ہاتھوں میں، امریکہ کو Absolutely not کہنے کی ’جرات رندانہ‘ بھی انہی کے پاس، میں بیٹھا سوچ رہا ہوں اب مولانا فضل الرحمٰن کس بات پر سیاست کریں گے؟ ان کے ہر مورچے پر تو عمران خان کا قبضہ ہو چکا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔