پاکستان کی افغان پالیسی کے معاملات ایک طرف تو بڑے صحیح اور منطقی ہیں۔ عمومی طور پر افغانستان کے لوگوں کی ہر قسم کی بہتری کے لیے یہ پالیسی ایک مثبت پالیسی ہے۔
پاکستان نے ماضی میں دیگر ممالک کے ساتھ مل کر خاص طور پر امریکہ کے ساتھ غلطیاں ضرور کیں لیکن ان کوتاہیوں کے باوجود افغانستان کے لوگوں کو ایک سہارا بھی دیا۔ اپنے ملک کو لاکھوں افغانوں کے لیے ایک پناہ گاہ کی صورت میں اور شاید یہ کہنا بھی درست ہوگا ایک نیا گھر مہیا کرنے کی صورت میں۔
بہرحال پاکستان کی افغان پالیسی بنانا آسان کام نہیں۔ ایک طرف ماضی کے معاملات جس کو لے کر افغانستان میں مار کھایا ہوا امریکہ اپنی تنقید نہیں روکتا اور دوسری طرف بوکھلایا ہوا بھارت اپنا پروپیگینڈا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں پاکستان ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔
ان مشکلات کی عکاسی حالیہ چند دنوں کے دوران دو واقعات واضح طور پر کرتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس نے گذشتہ روز لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ اس رپورٹ میں الزامات ہیں کہ مولانا نے پولیس کو دھمکی دی اور زمین پر ناجائز قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ مولانا کا نام فورتھ شیڈول میں بھی ہے جس کے باوجود مولانا نے پولیس کو طالبان کے نام کی دھمکی دی کہ ’وہ آپ کو ٹھیک کریں گے۔‘ پھر پولیس کے ادارے کے خلاف بولے اور ان کو کوئی دوسری نوکری تلاش کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ معاملات یقینا ریاست کو دھمکی دینے اور قانون سے بغاوت کرنے کے مترادف ہیں۔ مولانا صاحب نے سرعام غیرقانونی بات کی اور پولیس کو بغاوت پر کھلے عام اکسایا۔
سوال تو سب کے ذہنوں میں یہ ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان کی مدد نتیجے میں مولانا اس بغاوت کی پٹی پڑھا رہے ہیں تو پھر آگے کن خطرات سے پاکستان کی حکومت کو اور ریاست کو دوچار ہونا پڑے گا۔
دوسرے واقعے کا تعلق وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ بیان سے ہے۔ ایک ٹویٹ کے ذریعے انہوں نے یہ کہا کہ ’میں نے طالبان سے رابطہ قائم کیا ہے تاکہ ان کو میں یہ سمجھا سکوں کہ وہ ایک نمائندہ حکومت بنایں۔‘ اس بیان کے نتیجے میں طالبان حکومت کے ایک اہلکار نے افغانستان کے ٹی وی طلوع نیوز کو یہ جواب دیا کہ کسی غیرملکی حکومت کو انہیں یہ رائے دینے کی ضرورت نہیں۔ ’ہم اس تنقید کو مانتے ہی نہیں۔ ہماری موجودہ حکومت نمائندہ حکومت ہی ہے۔‘ ظاہر ہے اس کا جواب اب پاکستان سے نہیں آنا چاہیے۔
ان دونوں واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان کو ہر لفظ اور ہر قدم ناپ تول کر اور سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔ پیچیدہ معاملات پر روزانہ آدھے درجن بیان دینا یقینا عقل مندی نہیں۔ حکومتی معاملات سے جڑے ہوئے عہدیدار بارہا یہ کہتے ہیں کہ یہ طے ہوتا ہے کہ کم سے کم وزرا افغان پالیسی پر بات کریں گے لیکن ایسا عملی طور پر نہیں دکھتا۔ شاید توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں اہم معاملات پر آپس میں شاید مقابلہ بازی ہوتی ہے۔ الفاظ کی مقابلہ بازی کسی کو راس نہیں آتی۔
وزیر اعظم کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی اور اس پر عمل درآمد بھی کروانا ہوگا۔ خود ان کی اپنی بات بھی نپی تلی ہونی چاہیے اور یہ سوچ کر ادا ہونی چاہیے کہ اس کا افغانستان اور پاکستان کے اندر اور باہر اثر ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران خان افغانستان کے مستقبل کے بارے میں یقینا صحیح خیالات رکھتے ہیں جن کا اظہار انہوں نے حال ہی میں ایس سی او کے دوشنبے میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں کیا۔ وزیر اعظم تواتر کے ساتھ افغانستان کے لیے اپنا چار نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ تمام خطے کا مستقبل افغانستان کے امن سے نتھی ہے، نمبر دو کہ 40 سال میں پہلی مرتبہ عمران خان امن کے امکانات دیکھ رہے ہیں لیکن اگر ایک نمائندہ حکومت تشکیل نہیں دی جائے گی تو یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔
نمبر تین یہ کہ افغانستان کے امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اور خاص طور پر بین الاقوامی ادارے اقتصادی اور انسانی ہمدردی کی امداد فوری طور پر مہیا کریں۔ اس وقت افغانستان قحط سالی کے ساتھ ساتھ اقتصادی طور پر بدحالی کا شکار ہے۔ اگست 31 کے انخلا کے بعد تقریبا تمام مغربی ممالک نے باہمی امداد افغانستان کو روک دی ہے۔ امریکہ نے بھی یہی قدم اٹھایا اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی بینک، آئی ایم ایف اور امریکی فیڈرل ریزرو نے نہ صرف امداد روکی بلکہ افغانستان کے ڈالرز جو فیڈرل ریزرو بینک میں ہیں ان کو بھی منجمد کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں تیزی سے بگڑتی ہوئی اقتصادی صورت حال میں عمران خان کا کہنا ہے کہ پناہ گزین بڑی تیزی سے ہمسایہ ملکوں میں جانا چاہیں گے۔
آخری اور نمبر چار یہ کہ دہشت گردی افغانستان کو دوبارہ اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اس کے خاتمے میں جہاں ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی قوتیں اور ادارے اپنا کردار ادا کریں اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی حکومت کا اس میں بہت کلیدی کردار ہے۔ اسی بنا پر پاکستان نے 15 اگست کے بعد ان ممالک کے درمیان سیاسی، عسکری اور انٹیلی جنس کی سطح پر باقاعدہ ایک اجتماعی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے۔
وزیر اعظم کی یہ سوچ اور پاکستان کی مربوط حکمت عملی جس کے اقتصادی، خارجی، عسکری اور فلاحی پہلو ہیں ان سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے۔ یہی وجہ ہے افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک اور وہ ممالک بھی جن کا کبھی بھی پاکستان کے ساتھ تناؤ رہا ہے اور شاید اب بھی ہے ان سب نے پاکستان کی سوچ اور حکمت عملی کی تائید کرتے ہوئے اجتماعی طور پر کام شروع کر دیا ہے۔