پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے افغانستان میں امن و استحکام کے لیے طالبان سے بات چیت کو ’بہتر طریقہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو ایک باضابطہ حکومت بنانے اور اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے لیے انہیں وقت دینا چاہیے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں واقع اپنی رہائش گاہ سے انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کی جائے اور خواتین کے حقوق اور تمام فریقین پر مشتمل حکومت جیسے مسائل پر ان کی ’حوصلہ افزائی‘ کی جائے۔
گذشتہ ماہ غیر ملکی افواج کے انخلا اور طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد وزیر اعظم عمران خان کا کسی غیرملکی ادارے کو دیا گیا یہ پہلا انٹرویو تھا۔
عمران خان نے امریکی انخلا اور اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹ دیے جانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: ’ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ہمیں بتایا کہ طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل نہیں کرسکیں گے اور اگر انہوں نے افغانستان کو عسکری طاقت کے زور پر حاصل کرنے کی کوشش کی تو ایک طویل خانہ جنگی ہوگی، جس سے ہم خوفزدہ تھے کیونکہ اس کا سب سے زیادہ نقصان ہمیں ہی ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ دنیا کو ایک باضابطہ حکومت بنانے اور اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے لیے انہیں (طالبان کو) ’وقت دینا چاہیے۔‘
عمران خان نے کہا: ’پورے افغانستان کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے اور اگر وہ اب ایک جامع حکومت بنا سکتے ہیں اور تمام دھڑوں کو اکٹھا کرسکتے ہیں تو افغانستان میں 40 سالوں کے بعد امن ہو سکتا ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ملک خانہ جنگی کی طرف جا سکتا ہے، جس سے سب سے بڑا انسانی بحران اور مہاجرین کا ایک بہت بڑا مسئلہ جنم لے گا۔‘
عمران خان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ طالبان بحران سے بچنے کے لیے بین الاقوامی امداد کی تلاش میں ہیں، جو انہیں ایک ’جائز سمت‘ کی طرف دھکیلنے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان کو بیرونی افواج کنٹرول نہیں کرسکتیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’افغانستان میں کسی بھی کٹھ پتلی حکومت کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے، لہذا یہاں بیٹھنے اور یہ سوچنے کی بجائے کہ ہم ان پر قابو پاسکتے ہیں، ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، کیونکہ افغانستان کی موجودہ حکومت واضح طور پر محسوس کرتی ہے کہ بین الاقوامی امداد اور مدد کے بغیر وہ اس بحران کو روک نہیں پائیں گے، لہذا ہمیں انہیں درست سمت میں لے جانا ہوگا۔‘
انٹرویو کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان میں خواتین کے حقوق پر بھی بات کی اور کہا: ’یہ سوچنا غلط فہمی ہے کہ کوئی باہر سے افغان خواتین کو حقوق دے گا۔ وہ مضبوط ہیں۔ انہیں وقت دیں، وہ اپنے حقوق خود حاصل کرلیں گی۔‘
امریکی انخلا اور افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے وزیر اعظم عمران خان کی امریکی صدر جو بائیڈن سے بات چیت نہیں ہوئی ہے، حالانکہ پاکستان امریکہ کا ایک اہم غیر نیٹو اتحادی رہا ہے۔
انٹرویو کے دوران اس حوالے سے عمران خان نے کہا: ’میرے خیال میں وہ مصروف ہوں گے لیکن امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات ایک فون پر منحصر نہیں ہیں، اسے کثیر الجہتی تعلقات کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ انہوں نے امریکی حکام کو کوئی بار خبردار کیا کہ وہ افغانستان میں اپنے مقاصد فوجی کارروائی سے حاصل نہیں کر سکتے اور ’وہاں پھنس‘ جائیں گے۔ ان کے بقول امریکہ کو طالبان سے مذاکرات انخلا کے وقت پر نہیں بلکہ اس وقت کرنے چاہیے تھے جب ان کی ملک میں موجودگی زیادہ تھی۔
20 سالہ جنگ میں غیر مستحکم پاکستان امریکہ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہم کرائے کے قاتل کی طرح تھے، ہمیں ان کے لیے جنگ جیتنی تھی، جو ہم نہیں کر سکتے تھے۔‘