محمد بلال اتر پردیش کے چھوٹے سے شہر سمبھل میں واقع اپنی کپڑوں کی دکان کی طرف جا رہے تھے جب شہر کی صدیوں پرانی شاہی جامع مسجد کے قریب اچانک تشدد پھوٹ پڑا۔ انہوں نے اپنے بھائی کو فون کر کے بتایا کہ انہیں گولی لگ گئی ہے۔
گذشتہ سال 24 نومبر کا دن، وہ آخری موقع تھا جب ان کے بڑے بھائی 24 سالہ محمد سلمان نے ان کی آواز سنی۔ دی انڈپینڈنٹ کو سمبھل میں دیے گئے ایک انٹرویو میں سلمان بتاتے ہیں: ’میرے بھائی نے مجھے کہا کہ ’میں گھر آ رہا تھا جب لوگوں نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ پولیس ہجوم پر اندھا دھند فائرنگ کر رہی تھی۔ اس نے مجھے بھی گولی مار دی۔‘
چند گھنٹے بعد بلال، مراد آباد کے ایک ہسپتال میں دم توڑ گئے۔ وہ ان پانچ افراد میں شامل تھے جو ان جھڑپوں میں مارے گئے جن میں کم از کم 20 پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ یہ واقعہ گذشتہ سال اس علاقے میں ہونے والے تشدد کے بدترین واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔
سمبھل میں یہ پرتشدد واقعہ خطرناک تبدیلی کی علامت تھا۔ اس بےچینی کی بنیاد ایک عدالت کے حکم پر شاہی جامع مسجد، جو 16ویں صدی کی ایک مسجد ہے، کا آثار قدیمہ کے حوالے سے سروے بنا۔ ہندو فریقین کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد ایک مندر کے کھنڈرات پر تعمیر کی گئی۔
سمبھل کا تنازع کوئی واحد معاملہ نہیں۔ یہ انڈیا بھر میں مسلم عبادت گاہوں کو درپیش قانونی چیلنجز کی ایک وسیع لہر کا حصہ ہے۔ ایک ایسی تحریک جسے بعض لوگ تاریخ کو دوبارہ لکھنے اور عوامی مقامات کے مذہبی تشخص کو ہندو اکثریت کے حق میں بدلنے کی منظم کوشش قرار دیتے ہیں۔
ہندو تنظیموں کی بڑھتی ہوئی تعداد عدالتوں میں ایسی درخواستیں دائر کر رہی ہے جن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تاریخی مساجد منہدم شدہ ہندو مندروں کے اوپر تعمیر کی گئیں۔ یہ دعوے اکثر مبہم مقامی روایات یا غیر مصدقہ آثار قدیمہ پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن اب انہیں عدالتوں میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنجیدگی سے سنا جا رہا ہے۔
ان میں سے کئی قانونی مقدمات میں 1991 کے عبادت گاہیں (سپیشل پروویژنز) ایکٹ میں موجود ایک استثنیٰ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس قانون کا مقصد انڈیا کی آزادی کے وقت جتنے بھی عبادت گاہیں موجود تھیں، ان کی مذہبی حیثیت کو منجمد کرنا تھا۔ تاہم اس میں ایک نمایاں استثنیٰ شامل تھا یعنی ایودھیا۔
19 نومبر کو سمبھل کی ایک دیوانی عدالت نے شاہی جامع مسجد کا سروے کرانے کا حکم دیا، جس کی بنیاد ایک ایسی درخواست تھی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ مسجد 1526 میں ایک تباہ شدہ ہندو مندر پر تعمیر کی گئی۔
مرکزی درخواست گزار مہنت رشی راج گیری، جو آثار قدیمہ کے ادارے سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ’یہ بات پورے سمبھل کو معلوم ہے کہ مسجد کے نیچے ہری ہر مندر تھا۔‘
دائیں بازو کی تنظیم انٹرنیشنل ہری ہرسینا کے سربراہ گیری کا دعویٰ ہے کہ ’یہاں کے ہندو اور مسلمان دونوں اس بات سے واقف ہیں۔‘
علاقے کی مسلم تنظیموں کے ارکان نے شدید غصے کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ تو انہیں سروے کے بارے میں کوئی اطلاع دی گئی اور نہ ہی اس میں کی جانے والی عجلت کی کوئی وجہ بتائی گئی۔ بہت سے لوگ مسجد کے نیچے مندر ہونے کے دعوے کو ہی چیلنج کر رہے ہیں۔
مسجد کے قریب کام کرنے والے کپڑے کے تاجر سنجے کے مطابق: ’ہم تو اس ہری ہر مندر کے بارے میں اب سن رہے ہیں۔ یہ سرگوشیاں تو تب شروع ہوئیں جب بی جے پی اقتدار میں آئی۔‘
یہ 2014 کی بات ہے، جب نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے تاریخی کامیابی حاصل کی۔
بہت سے انڈین مسلمانوں کے لیے سمبھل کی مسجد کا تنازع ملک کی حالیہ تاریخ کے ایک تاریک لمحے کی یاد دلاتا ہے یعنی 1992 میں بابری مسجد کا انہدام۔
16ویں صدی کی مسجد، جو ایودھیا میں واقع تھی، ہندو ہجوم نے منہدم کر دی، جو کئی دہائیوں کی سیاسی اور مذہبی مہم جوئی کے نتیجے میں مشتعل ہوئے تھے۔ اس کے بعد ہونے والے پرتشدد فسادات میں 2000 سے زائد لوگوں کی جان گئی۔ یہ واقعہ انڈیا کے سیکولر ڈھانچے کے لیے خون میں ڈوبا ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔
2019 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے ایودھیا مقدمے پر حتمی فیصلہ سنایا۔ عدالت نے اگرچہ مسجد گرانے کو غیر قانونی قرار دیا، مگر اس کے باوجود زمین ہندو فریق کو دے دی گئی تاکہ وہاں رام مندر تعمیر کیا جا سکے جس کا افتتاح جنوری 2024 میں نریندر مودی نے کیا۔
یہ فیصلہ ملک بھر میں ایک بھونچال کی مانند تھا۔
سینیئر وکیل اور ہیومن رائٹس لا نیٹ ورک کے بانی کولن گونسالویس کہتے ہی کہ ’ایودھیا کا فیصلہ سپریم کورٹ کی تاریخ کا ایک انتہائی افسوس ناک لمحہ تھا۔ اس نے اقلیتی برادری کے ساتھ دھوکہ کیا اور غنڈہ گردی کو جیتنے دیا۔‘
تاہم وہ یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ عدالت نے معاملے کو روکنے کی کوشش کی: ’ججوں نے کہا کہ بس یہاں تک اور اس سے آگے نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ پلیسز آف ورشپ ایکٹ بدستور نافذ العمل ہے اور اب کسی اور مسجد کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔‘
’اور یہ کہ اس کے بعد اگر کوئی بھی کوشش کی گئی کہ کسی اور مسجد کی نشان دہی کی جائے، یہ کہا جائے کہ اس کی اصل ہندو ہے، اور عدالت سے یہ درخواست کی جائے کہ اس مسجد کو توڑ دیا جائے یا اس کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے تو یہ سب غیرقانونی اور آئین کے خلاف ہو گا۔ عدالت نے اس ایکٹ کو برقرار رکھا۔ باقی سب کچھ منجمد کر دیا گیا۔‘
سمبھل میں ہونے والا تشدد محض تازہ ترین واقعہ ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حد جو عدالت نے قائم کی اب بار بار پار کی جا رہی ہے۔
مئی 2022 میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچور کی سربراہی میں قائم بینچ نے بنارس میں گیان واپی مسجد کا آثار قدیمہ کے حوالے سروے کرنے کی اجازت دی، حالانکہ یہ خدشہ موجود تھا کہ یہ اقدام پلیسز آف ورشپ ایکٹ کی خلاف ورزی ہو سکتا ہے۔
جج نے وضاحت کی کہ 1991 کا قانون 15 اگست 1947 کی حیثیت کے بارے میں تحقیقات سے نہیں روکتا، بشرطیکہ ان کا مقصد عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو بدلنا نہ ہو۔ یہ وضاحت ہندو قوم پرست گروہوں کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوئی، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ مسجد 1678 میں ایک مندر کے اوپر تعمیر کی گئی۔
بعد میں کیے گئے ایک سروے میں مبینہ طور پر مسجد کے اندر شیولنگ، ہندو دیوتا شیو کی علامت، دریافت ہونے کا دعویٰ کیا گیا، تاہم مسجد انتظامیہ کا اصرار ہے کہ وہ دراصل ایک فوارے کا حصہ ہے۔
پھر 19 نومبر 2024 کو ایک دیوانی عدالت نے مہنت رشی راج گیری کی درخواست پر شاہی جامع مسجد کا سروے کرانے کا حکم دیا۔ گیری کا دعویٰ ہے کہ 1526 میں تعمیر کی گئی یہ مسجد ایک منہدم شدپ ہری ہر مندر کے اوپر کھڑی ہے۔ 24 نومبر کو جب عدالت کے حکم پر دوسرا سروے کیا جا رہا تھا تو جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
ایڈووکیٹ کولن گونسالویس اس بگڑتی ہوئی صورت حال کا الزام ’انڈین عدلیہ کی غفلت‘ پر ڈالتے ہیں اور اس کی ’آزادی‘ پر سوال اٹھاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’عدلیہ خود ایسے سقم متعارف کرانے کی ذمہ دار ہے‘ جنہیں ملک کی انتہائی دائیں بازو کی تنظیموں نے فوراً موقع سمجھ کر دوسرے مذہبی ڈھانچوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
سمبھل کے مسلمان کہتے ہیں کہ انہیں سروے کے بارے میں کسی قسم کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔ ایک مقامی نوجوان رہنما، جو نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، کہتے ہیں: ’یہ ہماری شناخت پر اچانک ہونے والا ایک حملہ محسوس ہوا۔‘
سمبھل میں ہونے والی جھڑپوں نے تشدد کے دوبارہ بھڑک اٹھنے کے خدشات کو ہوا دی اور عدلیہ کے کردار پر سنجیدہ سوالات اٹھائے کہ آیا وہ دو برادریوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینے میں ریاستی حکومت کی پشت پناہی کا حصہ بن رہی ہے۔
بلال کے بھائی سلمان کا الزام ہے کہ انہوں نے ایف آئی آر میں پولیس اہلکاروں پر ان کے بھائی کو گولی مارنے کا ذکر کیا تو انہیں ہراساں کیا گیا۔ سلمان کہتے ہیں: ’انہوں نے ہم پر دباؤ ڈالا کہ ہم ایف آئی آر سے پولیس کا نام ہٹا دیں۔ گرفتاری کی دھمکی دی گئی۔‘
’انہوں نے صاف کہا کہ اگر ہم اپنی بات واپس نہیں لیں گے تو ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔‘
سلمان مزید بتاتے ہیں کہ ’خوف ناقابلِ برداشت تھا۔ ہم نہ بیٹھ سکتے تھے، نہ کھا سکتے تھے، نہ سو سکتے تھے۔ پولیس ہمارے گھر میں گھس آتی تھی، ہمیں ہراساں کرتی تھی۔‘
ان کی والدہ، 45 سالہ شہانہ بیگم یاد کر کے بتاتی ہیں کہ ’ایک دن وہ اندر گھس آئے اور لیڈی پولیس بلانے کی دھمکی دینے لگے۔ یہ سب کئی دنوں تک چلتا رہا۔ میں خوف زدہ تھی۔ دل میں یہ ڈر تھا کہ میرا بیٹا تو مارا ہی جا چکا ہے، اب یہ ہمیں بھی ستا رہے ہیں۔‘
وہ بات کرتے کرتے رو پڑیں اور کہا کہ ’جب ہم نے ایف آئی آر سے پولیس کے نام ہٹوا دیے، تب جا کر ہراسانی کا سلسلہ رکا۔‘
65 سالہ نفیسہ بیگم کا دعویٰ ہے کہ ان کے 18 سالہ بیٹے محمد ایان کی موت پولیس کی گولی سے ہوئی۔ اس دن کا حال بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’ایان کا ہوٹل مسجد کے قریب تھا۔ مجھے نہیں معلوم کیا ہوا، لیکن صبح نو بجے لوگ چیختے چلاتے آئے کہ ایان کو گولی لگ گئی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں دوڑتی ہوئی باہر نکلی اور انہیں چارپائی پر پڑا دیکھا، ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ میں بمشکل کھڑی رہ سکی۔ میں نے پوچھا کہ ’کیا ہوا؟‘ تو انہوں نے کہا کہ ’امی، میں ہجوم کے ساتھ بھاگ رہا تھا۔ گر گیا اور پھر محسوس ہوا کہ مجھے گولی لگی ہے۔ پولیس فائرنگ کر رہی تھی۔ ‘
ایان بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ اطلاعات کے مطابق ان کے پیٹ میں گولی لگی۔ نفیسہ کہتی ہیں: ’تب سے لے کر آج تک لوگوں نے، یہاں تک کہ پولیس نے بھی، مجھ پر دباؤ ڈالا کہ میں گولی لگنے کی بات نہ کہوں۔ وہ کہتے تھے کہ میں کہہ دوں کہ ہجوم میں کیا ہوا؟ معلوم نہیں، مگر میں ایسا نہیں کر سکتی۔‘
’میرا بیٹا خود مجھے کہہ کر گیا کہ انہیں پولیس نے گولی ماری، اور وہ قرآن پڑھنے والے بچے تھے۔ میں قیامت کے دن انہیں کیا جواب دوں گی؟‘
قومی میڈیا کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متاثرین کی موت دیسی ساختہ پستولوں سے چلائی گئی گولیوں کی وجہ سے ہوئی۔ سمبھل کے ڈویژنل کمشنر اونجنیا سنگھ نے بیان دیا کہ ’زیادہ تر اموات آتشیں اسلحے سے لگنے والے زخموں سے ہوئیں۔ ممکنہ طور پر 315 بور کی گولیوں سے جو دیسی ساختہ پستولوں سے چلائی گئیں۔ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے زیادہ تر چھروں والی بندوقوں کا استعمال کیا۔ آیا دیگر مظاہرین کی گولیاں لگنے سے موت ہوئی اس کی تحقیقات جاری ہے۔‘
انڈیا بھر میں کئی بڑی مساجد اور مسلمانوں کے مزارات اب چھان بین کی زد میں ہیں جن کی تفصیل یوں ہے۔
* گیان واپی مسجد (بنارس، اتر پردیش)۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ مسجد بھگوان شیو کے منہدم مندر کے اوپر تعمیر کی گئی۔ 2021 سے اس پر مقدمہ زیر سماعت ہے۔
* شاہی عیدگاہ مسجد (متھرا، اتر پردیش) 17ویں صدی میں تعمیر کی گئی۔ اب مسجد کو ان گروپوں کی جانب سے چیلنج کیا جا رہا ہے جو کہتے ہیں کہ اس نے بھگوان کرشن کی جائے پیدائش پر قبضہ کر رکھا ہے۔
* خواجہ غریب نواز درگاہ، اجمیر شریف (راجستھان) 16ویں صدی کا صوفی مزار، جو حال ہی میں دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے سروے کے مطالبے کی زد میں آ چکا ہے۔
27 نومبر کو اجمیر کی ایک عدالت نے ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا کی جانب سے دائر کی گئی ایک درخواست کو منظور کر لیا، جس میں اجمیر شریف درگاہ کا سروے کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ اس مقام پر بھگوان شیو کا قدیم ہندو مندر موجود تھا۔
عدالت نے اس سلسلے میں اقلیتی امور کی وزارت، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) اور درگاہ کمیٹی کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
گپتا کے وکیل نے 1911 میں شائع ہونے والی کتاب اجمیر: ہسٹاریکل اینڈ ڈسکرپٹیو، کا حوالہ دیا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ درگاہ کی تعمیر میں ایک ہندو مندر کے ملبے کو استعمال کیا گیا، جس میں ایک شیولنگ بھی شامل تھا جسے پہلے ایک برہمن خاندان پوجتا تھا۔
گپتا نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام میں کوئی مزار عبادت کی جگہ نہیں ہوتی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ وہاں کوئی نماز نہ پڑھے۔‘
ہندو سینا، جو ایک انتہائی دائیں بازو کی تنظیم ہے اور جس کا ماضی مجرمانہ مقدمات سے جڑا ہوا ہے، خود کو ’اسلامائزیشن‘ کی مخالفت اور ’سناتن دھرم‘ کے تحفظ کی علم بردار قرار دیتی ہے۔ گپتا ان پر سماجی تفریق پھیلانے کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انصاف مانگنا سماجی انتشار کی وجہ کیسے بن گیا؟‘
وہ مزید کہتے ہیں: ’ہندو تین سو سال استحصال کا شکار رہے ہیں۔ ہم اپنی زمین واپس چاہتے ہیں۔‘
ایسے تنازعات میں شدت پر مؤرخین اور قانونی ماہرین نے بھی تنقید کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ ان مقدمات کے ذریعے انڈیا کے پیچیدہ تاریخی ورثے کو مسخ کیا جا رہا ہے۔
یونیورسٹی آف ایریزونا میں تاریخ کے پروفیسر اور کتاب ’انڈیا ان دا پرشیانیٹ ایج: 1765۔1000 کے مصنف رچرڈ ایم ایٹن نے دا ڈپلومیٹ سے گفتگو میں کہا کہ ’ایسے (شاہی) مندروں کی بے حرمتی شکست خوردہ دشمن کو اس کی سابقہ خودمختار حیثیت کی سب سے نمایاں علامت سے کاٹنے کا ایک معمول کا طریقہ تھی، تاکہ اسے سیاسی طور پر بے اثر کر دیا جائے۔‘
رچرڈ ایم ایٹن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مؤرخ رانا صفوی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ہم نہ تو کسی ’ فرضی‘ اور نہ ہی حقیقی تاریخی ناانصافی کو زبانی کہانیوں، مقبول بیانیوں یا حتیٰ کہ تاریخی ذرائع کی بنیاد پر درست کر سکتے ہیں۔‘
’آج، جب کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں، ہمارے چیلنجز مختلف ہیں اور ہمارے ردعمل بھی اسی کے مطابق ہونے چاہئیں۔ یہ عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔‘
الہ آباد ہائی کورٹ نے جب گیان واپی مسجد کے آثار قدیمہ کے سروے کا حکم دیا تو کہا: ’انصاف کے تقاضے کے تحت سائنسی سروے ضروری ہے۔‘
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ان سرویز کا مقصد تاریخی سچائیوں کو آشکار کرنا کم، اور برادریوں کی تقسیم کو ہوا دینا زیادہ معلوم ہوتا ہے۔
سمبھل میں تشدد کے واقعے کے بعد کے حالات نے ایک پوری برادری کو غم، صدمے اور غیر یقینی صورت حال میں مبتلا کر دیا۔ محمد سلمان اپنے بھائی کی موت پر سوگوار ہیں اور اس سروے کے محرکات پر سوال اٹھاتے ہیں جس نے جھڑپوں کو جنم دیا۔
وہ پوچھتے ہیں: ’یہ سروے چپکے سے، ہمیں بتائے بغیر کروانا کیوں ضروری تھا؟‘
’میرا بھائی بلا وجہ مارا گیا۔ محض سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔‘
© The Independent