ایک اور معصوم فرشتہ آدم خور انسان کی جنسی زیادتی کا شکار ہو گئی۔ کیا اب بھی آپ چپ رہیں گے؟
اسلام آباد کی فرشتہ جیسے معصوم بچے بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہر لحاظ سے دل دہلا دینے والے واقعہ تھا لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ جنسی زیادتی کے مرتکب مجرموں کی سرزنش کی بجائے اب بھی لوگوں کا اصرار ہے کہ خواتین کو گھر سے نکلنا کم کرنا چاہیے اور لباس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ کہ لوگوں کو آج بھی لگتا ہے کہ خواتین کے لباس اور گھر سے باہر نکلنے کی وجہ سے ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ زینب، فرشتہ اور ان جیسے بےشمار معصوم بچوں کے لباس میں ایسا کیا تھا جس نے ایک آدمی میں جذباتی ہیجان پیدا کیا، جس نے ان معصوم کلیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور بعد میں بے دردی سے قتل کرنے کا جواز بھی دیا۔
خدارا اب تو یہ منافقت چھوڑ دیں اور برملا غلط کو غلط کہیں۔ جب تک بحیثیت مجموعی ہمارا معاشرہ جنسی زیادتی کے محرکات کو نہیں سمجھے گا، اس کے تدارک کے لیے اقدامات دور رس ثابت نہیں ہو سکتے۔
جنسی زیادتی کے محرکات میں جنسی ہیجان سے زیادہ طاقت، کنٹرول، برتری اور انتقام جیسے جذبوں کا دخل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بیشتر قومی اور بین الاقوامی اداروں کی تحقیقی رپورٹیں اور مراسلات اس وقت انٹرنیٹ پر عوام کی آگہی کے لیے موجود ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ہمارے ہاں پڑھنے کا زیادہ رواج نہیں۔
فرشتہ اور زینب کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد اکثر حلقوں میں بحث چلی ہے جن میں سے کچھ میں شاید آپ نے بھی حصہ لیا ہو گا۔ بہت سارے سوال اٹھائے ہوں گے اور اپنا موقف بھی دیا ہو گا۔ اس تحریر کے ذریعے میں بھی آپ کے ساتھ ایک بحث شروع کرنا چاہتی ہوں۔
ہم میں سے کتنے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنسی زیادتی ایک برا عمل ہے اور کتنے یہ سمجھتے ہیں کہ جنسی زیادتی کرنے والا انسان برا اور خوفناک ہوتا ہے؟
کیا یہ افسوس ناک نہیں کہ آج بھی ہم میں سے اکثر جنسی زیادتی کو تو برا فعل سمجھتے ہیں لیکن ایسا کرنے والے کو برا اور خوفناک نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان کے بارے میں زیادہ بات کرتے ہیں۔
بلکہ اس کے برعکس یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات زیادتی کا شکار ہونے والے انسان کے بارے میں ہی زیادہ بحث ہوتی ہے۔
آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے حد ہی تمام ہو گئی ہے۔ بلا اجازت اور بلا تردد لوگ جنسی زیادتی کے متاثرین کی تصاویر، اس سے اور اس کے خاندان سے متعلق، حتیٰ کہ اس کی زندگی کے ہر پہلو کو سوشل میڈیا کی زینت بنا دیتے ہیں۔
لیکن جو درندہ اس جرم کا ذمہ دار ہوتا ہے اس کے بارے میں سرے سے بات ہی نہیں ہوتی، بلکہ اس کو تھانے اور عدالت لاتے لے جاتے ہوئے اس کا چہرہ کپڑے سے ڈھک دیا جاتا ہے۔ کیا یہ سراسر زیادتی نہیں؟
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ جنسی زیادتی کرنے والا ہمارے معاشرے کا گمراہ انسان ہوتا ہے لیکن اگر آپ ایسے واقعات کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس میں ملوث لوگ اکثر اوقات پڑھے لکھے، سمجھ دار حتیٰ کہ مذہبی رجحان رکھنے والے ہوتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنسی زیادتی کرنے والے ہمارے اس پاس ہر وقت موجود اور اسی معا شرے کا حصہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنسی زیادتی کرنے والوں کی ڈھٹائی دیکھیں کہ اسی معاشرے میں آپ کے، میرے اور ہم سب کے ساتھ رہتے ہوئے بھی وہ خود کو اس معاشرے کا جواب دہ نہیں سمجھتے اور اس معاشرے میں رہنے والے ہر انسان کی کھل کھلا کر تذلیل کرتے ہیں۔
یہاں پر معاشرے کا کیا کردار بنتا ہے؟ کیا ایسے معاشرے میں ایسے لوگوں کے لیے کوئی جگہ ہونی چاہیے یا ان کی نشاندہی کر کے ان کے ساتھ وہ رویہ اور عمل اپنانا چاہیے جس کے وہ حقدار ہیں؟
جب ہم رویے کی بات کرتے ہیں تو میرا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جنسی زیادتی کے مرتکب ہونے والوں سے نفرت اور کنارہ کشی اس مسئلے کا حل ہے، بلکہ میں یقین سے کہتی ہوں کہ جب تک ہم جنسی زیادتی کے محرکات اور وجوہات کو اس کی گہرائیوں سے نہیں سمجھیں گے، تب تک ہم اس کے خاتمے کے لیے دور رس اقدامات نہیں کر سکتے۔
بصورت دیگر ہمارا معاشرہ درجہ بہ درجہ جنسی زیادتی کرنے والے درندے ہی پروان چڑھائے گا۔
جنسی زیادتی کا واقعہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہو، اس کے اثرات ہم سب پر مرتب ہوتے ہیں۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اردگرد رہنے والے کبھی اس ظلم کا شکار نہیں ہو سکتے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔
یہ مسئلہ صرف آپ کے سوچنے سے نہیں ٹل سکتا۔ آپ کو اس کے لیے عملی طور پر سرگرم ہونا پڑے گا اور اس کے حل کے لیے اپنا کردار نبھانا ہو گا۔
ہمارے ملک میں جنسی زیادتی کے خاتمے کے لیے قوانین موجود ہیں اور اب اکثر و بیشتر ادارے عملی سطح پر اقدامات بھی کر رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود اکثر لوگ اپنے ساتھ جنسی زیادتی پر کھل کر بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ کہ وہ جانتے ہیں کہ معاشرہ حمایت کے بجائے الٹا ان کا تماشا بنائے گا۔
جنسی زیادتی کے واقعات میں آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جنس یا عمر کی بنیاد پر کوئی خاص تفریق موجود نہیں بلکہ عمومی طور پر ہر جنس اور عمر کے لوگ اس ظلم کا شکار ہوتے آ رہے ہیں۔
تاہم اگر دوسری طرف آپ جنسی زیادتی کرنے والوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو اکثر یت مردوں کی نظر آئے گی۔ کیا اس سے صاف پتہ نہیں چلتا کہ یہ مردوں کا مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے انہی کو ہی کچھ کرنا ہو گا۔
ہم نے ہمیشہ اپنے ارد گرد ایک بالکل متضاد رویہ پایا ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جنسی زیادتی خواتین کا مسئلہ ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ جنسی زیادتی کے خاتمے کے حوالے سے ہمیشہ خواتین بلکہ خصوصی طور پر انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی خواتین نے ہی زیادہ کام کیا۔
بجائے یہ کہ ان خواتین کی مزید پذیرائی اور حوصلہ افزائی ہو، جنسی زیادتی کو سراسر خواتین کا ہی مسئلہ بنایا جاتا ہے اور مرد خود کو مبرا سمجھتے ہیں۔
یہی رویہ اس سوچ کی بنیاد ہے کہ سارا مسئلہ عورت کے کھلے عام پھرنے اور لباس سے ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنسی زیادتی ہوتی رہے گی کیونکہ اس کے روک تھام کے لیے کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے اور اس کے حل کے لیے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔
جنسی زیادتی کے خاتمے کے لیے ہمیں بحیثیت مجموعی ردعمل (ری ایکٹیو) رویے سے زیادہ پیشگی حفاظتی (پرو ایکٹیو) رویہ اپنانا ہو گا، جس سے جنسی زیادتی کے جرائم کا خاطر خواہ خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔