ایک دوست کے ساتھ گزرے روز اسلام آباد میں واقع ایک بڑے شاپنگ مال میں جانا ہوا۔ جانے کا مقصد عید کی خریداری نہیں بلکہ ’ونڈو شاپنگ‘ اور قیمتوں کی جانچ کرنا تھا۔ آیا عید کے لیے ہم کوئی کُرتا وغیرہ لینے کی استعداد بھی رکھتے ہیں کہ نہیں۔
ایک دکان میں سیلزمین پوچھنے لگا کہ آج کل ’ریاست مدینہ‘ کے دارالحکومت میں کیا چل رہا ہے؟ میں نے کہا بھئی یہ تو وہاں کے حکمرانوں کو پتہ ہو گا۔
میرے سکوت کو توڑتے ہوئے بولا سر مجھے ایک بات بتائیں کہ وزیرستان میں پی ٹی ایم اور ریاست کے درمیان جو معاملات ہوئے جب میڈیا پر خبریں آنے لگی کہ ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کو گرفتار کر لیا گیا تو میں نے میڈیا سے آگاہی لینے کے لیے ٹی وی چینلز آن کیے تو ہر چینل پر ایک جیسی خبر چل رہی تھی۔ کیا یہ خبریں یا ٹکرز کسی خاص جگہ سے واٹس ایپ کیے جا رہے تھے۔
میں اس نوجوان کی باتیں انہماک سے سن رہا تھا۔ وہ بولے جا رہا تھا اور مجھے حیران کر رہا تھا۔ اپنی بات جاری رکھے ہوئے وہ کہہ رہا تھا کہ لوگوں کے اندر شعور آ گیا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی دولت اس کا نوجوان طبقہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری آوازوں کو دبایا جا رہا ہے۔ عوام کے سامنے حقائق بیان نہیں کیے جا رہے۔ ایک خاص سوچ عوام کے ذہنوں میں کاشت کی جا رہی ہے اب وہ دور نہیں رہا کہ سرکاری ٹیلی ویژن، ریڈیو یا اخبارات کے ذریعے جو عوام کو بتایا جاتا لوگ اُس پر یقین کر لیتے۔ اب ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ بھول گئے کہ اظہار کے اور بھی بہت سے ذرائع ہیں۔
وہ بغیر وقفہ کیے اپنی بات بیان کر رہا تھا میں نے اُس کی گفتگو میں خلل ڈالا اور پوچھا بتائیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ کہنے لگا میرا تعلق پنجاب سے ہے اور میں یہاں قائد اعظم یونیورسٹی میں آئی آر کا طالب علم ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی ایم والوں کو سننا چاہیے کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں؟
کیوں حکومتی وزراء اپنے بیانات کے ذریعے منہ سے آگ اگل رہے ہیں؟
سر دیکھیں ایک معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تو دوسرا ’کٹا‘ کھول دیا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا گیا۔ اپ جانتے ہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا تعلق اس صوبے سے ہے جہاں آج تک بلوچستان کے لوگوں کو سیاسی حقوق نہیں دیے گئے۔ طاقت کے زور پر اُن آوازوں کو کچلا جا رہا ہے جو اپنے حقوق کی مانگ کرتے ہیں۔ انہیں غداری کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ سر یہ لوگ غدار نہیں ہمارے اپنے ہیں انھیں سینے سے لگانے کی ضرورت ہے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔
دکان میں گاہکوں کا رش بڑھ گیا تھا۔ میں نے اجازت لینا چاہی تو کہنے لگا غصہ نفرت کو جنم دیتا ہے، نفرت بغاوت کو اور بغاوت طاقت کو کچل دیتی ہے۔
دکان سے باہر نکلتے وقت سوچ رہا تھا کہ آج کے جدید دور میں لوگوں کو بےوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لیے طاقتور حلقوں کو چاہیے کہ وہ سچ قوم کے سامنے رکھیں۔
.............................
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر منصف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔