غذائی قلت سے منسلک ذیابیطس کی ایک نئی قسم کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے جو موٹاپے سے نہیں بلکہ ناقص غذا سے تعلق رکھتی ہے۔ شوگر کی اس قسم کو پہلی بار کئی دہائیاں قبل ترقی پذیر ممالک میں دیکھا گیا۔
انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن (آئی ڈی ایف) نے اس ماہ باضابطہ طور پر اس مرض کو ’ٹائپ فائیو ذیابیطس‘ یا ’میچورٹی آن سیٹ ڈائبیٹیز آف دی ینگ‘ (موڈی) کا نام دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق خیال ہے کہ شوگر کی یہ کمیاب قسم دنیا بھر میں تقریباً ڈھائی کروڑ افراد کو متاثر کرتی ہے۔ یہ بیماری غریب اور متوسط گھرانوں کے ایسے نوجوانوں اور نوعمر افراد میں پائی جاتی ہے جو جسمانی طور پر دبلا پتلا ہونے کے ساتھ ساتھ غذائی قلت کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ ناقص غذا کی وجہ سے ان کے جسم میں انسولین کی پیداوار کم ہو جاتی ہے۔
ذیابیطس کی یہ نئی قسم ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو سے مختلف ہے اور اسے کئی سال کی بحث کے بعد آٹھ اپریل کو تھائی لینڈ کے شہر بینکاک میں ہونے والی آئی ڈی ایف کی عالمی ذیابیطس کانگریس میں رائے شماری کے ذریعے باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا۔
البرٹ آئن سٹائن کالج آف میڈیسن کی میڈیسن پروفیسر میریڈتھ ہاکنز کا کہنا تھا کہ غذائی قلت سے تعلق رکھنے والی ذیابیطس کو ’تاریخی طور پر ہمیشہ کم تشخیص شدہ اور کم سمجھا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آئی ڈی ایف کی جانب سے اسے ٹائپ فائیو ذیابیطس تسلیم کرنا اہم قدم ہے جس سے اس صحت کے مسئلے کے بارے میں آگاہی بڑھے گی جو لاکھوں لوگوں کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔‘
ٹائپ فائیو ذیابیطس منفرد موروثی بیماری ہے جو نوعمری یا 20 برس کی عمر کے قریب بھگ ظاہر ہوتی ہے۔ اس بیماری کا سبب والدین سے بچوں میں منتقل ہونے والا ایک جینیاتی تغیر ہوتا ہے۔ اگر والدین میں سے کسی ایک کے جسم میں یہ جین موجود ہو تو ان کے بچوں میں بھی اس کے منتقل ہونے کے امکانات 50 فیصد ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ بیماری موٹاپے یا طرز زندگی کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ اندازہ ہے کہ ’موڈی‘ عالمی سطح پر ڈھائی کروڑ افراد کو متاثر کرتی ہے جن میں زیادہ تر ایشیا اور افریقہ کے ایسے نوجوان مرد شامل ہیں جن کا باڈی ماس انڈیکس 19 کلوگرام فی مربع میٹر سے کم ہے۔
انڈیا کے کرسچین میڈیکل کالج میں اینڈوکرائنولوجی کے پروفیسر اور ’ٹائپ فائیو ذیابیطس ورکنگ گروپ‘ کے رکن نہال تھامس کا کہنا ہے کہ یہ بیماری لبلبے کے بیٹا خلیات کو غیر معمولی طور پر متاثر کرتی ہے جس کے باعث انسولین کی پیداوار ناکافی ہو جاتی ہے۔ اخبار انڈین ایکسپریس نے ان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’باضابطہ طور پر تسلیم نہ کیے جانے کے باعث اس بیماری پر بہت کم تحقیق ہوئی اور اس کی اکثر غلط تشخیص کی گئی۔‘
موڈی کو پہلی مرتبہ 1955 میں جمیکا میں دریافت کیا گیا تھا۔ تین دہائیوں بعد عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اسے ’غذائی قلت سے وابستہ ذیابیطس‘ کے طور پر ذیابیطس کی ایک الگ قسم قرار دیا تاہم 1999 میں شواہد کی کمی کے باعث اسے ختم کر دیا گیا۔
ڈاکٹر ہاکنز نے میڈسکیپ میڈیکل نیوز کو بتایا کہ مریضوں کی عام طور پر غلط تشخیص کر کے انہیں ٹائپ ون ذیابیطس کا مریض سمجھ لیا جاتا ہے حالاں کہ ایسے مریضوں کو ضرورت سے زیادہ انسولین دینے سے ان کی جان کو فوری طور پر خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ہاکنز نے مزید کہا: ’غذائی قلت سے منسلک ذیابیطس ٹی بی سے زیادہ عام اور تقریباً ایچ آئی وی، ایڈز جتنی ہی عام بیماری ہے لیکن اسے سرکاری طور پر کوئی نام نہ ملنے کے باعث مریضوں کی درست تشخیص اور مؤثر علاج تلاش کرنے میں مشکلات پیدا ہوئیں۔‘
ڈاکٹر ہاکنز نے کہا کہ انہیں پہلی بار غذائی قلت سے وابستہ ذیابیطس کے بارے میں 2005 میں ایک عالمی طبی اجلاس کے دوران معلوم ہوا جب متعدد ملکوں کے ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کے پاس ’ذیابیطس کی ایک غیر معمولی قسم‘ کے مریض آ رہے ہیں۔
میڈیکل ایکسپریس کے مطابق ڈاکٹر ہاکنز کا کہنا تھا کہ ’یہ مریض نوجوان اور دبلے پتلے تھے، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں ٹائپ ون ذیابیطس ہے جسے انسولین کے انجیکشن کے ذریعے خون میں شوگر کی سطح کو قابو میں رکھ کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انسولین نے ان مریضوں کی کوئی مدد نہیں کی، بلکہ بعض کیسز میں اس سے خون میں شوگر کی سطح خطرناک حد تک گر گئی۔‘
ان کے مطابق ان مریضوں کو ٹائپ تو ذیابیطس بھی نہیں تھی جو عام طور پر موٹاپے سے منسلک ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’یہ صورت حال انتہائی پیچیدہ اور مبہم تھی۔‘
ڈاکٹر ہاکنز نے 2010 میں البرٹ آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن میں ’آئن اسٹائن گلوبل ڈائبیٹیز انسٹی ٹیوٹ‘ قائم کیا تھا جس نے غذائی قلت سے وابستہ ذیابیطس کے بنیادی میٹابولک مسائل کو سمجھنے کے لیے عالمی سطح پر تحقیق کی قیادت کی۔ ایک دہائی سے زائد عرصے بعد 2022 میں ڈاکٹر ہاکنز اور کرسچین میڈیکل کالج کے ان کے ساتھیوں نے واضح طور پر ثابت کر دیا کہ ذیابیطس کی یہ قسم ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ اس قسم کے مریضوں میں انسولین کے اخراج کی صلاحیت شدید طور پر متاثر ہوتی ہے، جس کا پہلے علم نہیں تھا۔ ’اس دریافت نے بیماری کے بارے میں ہمارے تصورات اور اس کے علاج کے طریقوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔‘
ڈاکٹر ہاکنز کے مطابق دنیا بھر کے ڈاکٹر اب بھی یہ واضح طور پر نہیں جانتے کہ ایسے مریضوں کا علاج کیسے کیا جائے، جن میں سے بیشتر تشخیص کے بعد ایک سال سے زیادہ زندہ نہیں رہتے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ٹائپ فائیو ذیابیطس کو قابو میں رکھنے کے لیے مریضوں کو اپنی خوراک میں پروٹین کی مقدار زیادہ اور کاربوہائیڈریٹ کی مقدار کم رکھنی چاہیے، جب کہ جسم میں جن غذائی اجزا کی کمی ہو، ان پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ لیکن اب اس معاملے پر مزید تفصیلی اور احتیاط سے تحقیق کی ضرورت ہے کیوں کہ اس کے لیے اب عالمی سطح پر آمادگی اور آئی ڈی ایف کی باضابطہ منظوری حاصل ہو چکی ہے۔‘
© The Independent