دو اور تین فروری کی درمیانی شب بلوچ شدت پسندوں نے بلوچستان کے پنجگور اور نوشکی کے علاقوں میں ایف سی کے کیمپ پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ایک سکیورٹی اہلکار جان کی بازی ہار گیا جبکہ حملے میں چار شدت پسند بھی مارے گئے۔
ایف سی کے اہلکاروں نے شدت پسندوں کی کیمپ میں گھسنے کی کوشش کو پسپا کر دیا۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچستان کی جنگجو تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کی۔
یہ حملے بلوچستان میں جاری تشدد کے حالیہ واقعات میں بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے 25 اور 26 جنوری کی درمیانی شب بھی بلوچ لبریشن آرمی نے ضلع کچھ میں حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں 10 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے تھے۔
اس حملے کے دو دن بعد بلوچ لبریشن آرمی کے سوئی کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں تین ایف سی اہلکار اور بگٹی قبیلہ کے ایک مشر بم دھماکے میں چل بسے تھے۔
بلوچستان میں جاری حملوں کی تازہ لہر کو افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ امریکی انخلا کے بعد بلوچ عسکریت پسندوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو جنوبی افغانستان کے علاقوں نمروز اور قندھار کو چھوڑ کر یا تو بلوچستان واپس آنا پڑا یا ایران میں راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔
امریکی انخلا کے پیش نظر کچھ بلوچ گروپوں نے آپس میں انضمام کرلیا یا باہمی اختلافات ختم کرکے اتحاد کرلیا۔ اس کی تازہ مثال بلوچ لبریشن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام کی ہے، جنہوں نے اپنی تنظیموں کو یکجا کرکے بلوچ نیشنلسٹ آرمی کی بنیاد رکھی۔ بلوچ نیشنلسٹ آرمی نے 20 جنوری کو لاہور کے انارکلی بازار میں بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں تین افراد ہلاک اور 28 زخمی ہوئے تھے۔
اپنی شورش کو بہتر طور پر منظم کرنے کے لیے اور امریکی انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بلوچ گروپوں نے منظم حکمت عملی کے تحت پرتشدد کاروائیوں میں اضافہ کیا ہے۔ وہ یہ تاثر زائل کرنا چاہتے ہیں کہ افغانستان سے نکالے جانے کے بعد ان کی تحریک کمزور ہوئی ہے۔
جیسے جیسے بلوچستان میں بلوچ شدت پسندوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ تشدد کی حالیہ لہر بھی شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔
بلوچستان میں جاری حملوں کی حالیہ لہر کی ایک نئی جہت یہ بھی ہے کہ اس میں زیادہ تعداد مڈل کلاس سے وابستہ غیر قبائلی شدت پسندوں کی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق گوادر، پسنی، لسبیلہ اور مکران کے ساحلی علاقوں سے ہے جبکہ قبائلی شدت پسند زیادہ تر بگٹی، مری اور مینگل قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔
غیر قبائلی شدت پسند زیادہ پر تشدد اور انقلابی ترجیحات رکھتے ہیں۔ یہ غیر قبائلی شدت پسند اب بلوچستان میں پر تشدد کارروائیوں کے ذریعے اپنے اثرورسوخ کو بڑھا رہے ہیں، جس سے حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2017 اور 2020 کے دوران بلوچستان میں پُرتشدد کارروائیوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ اس عرصے کی قابل ذکر بات یہ بھی تھی کہ بلوچ شدت پسندوں کی اندرونی لڑائی کا مذہبی شدت پسند گروہوں، جیسا کہ داعش خراسان اور تحریک طالبان پاکستان نے فائدہ اٹھایا تھا، لیکن 2021 کے اوائل سے بلوچ گروپوں نے دوبارہ سے اپنے پاؤں جمانا ثروع کیے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان سے نکالے جانے کے بعد اب بلوچ گروپ ایران میں منظم ہو رہے ہیں۔ بلوچستان کے اس وقت کے سب سے طاقتور گروہ بلوچ لبریشن فرنٹ کے رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ایران میں پناہ گزین ہیں۔
ماضی میں بلوچ شدت پسند گروپوں کی ایران سے پاکستان میں کارروائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ ایران پاکستان پر جیش العدل نامی تنظیم کو پناہ اور معاونت دینے کے الزام عائد کرتا رہا ہے۔ ایران سے پاکستان میں بڑھتی ہوئی پُرتشدد کارروائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان نے ایران سے منسلک تقریباً 900 کلومیٹر سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا تھا، جس پر ابھی کام جاری ہے۔
اگر حالیہ پُر تشدد کارروائیوں کے سیاسی محرکات پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ حالیہ چند برسوں میں بلوچستان میں سیاسی غیریقینی اور معاشی بدحالی میں اضافہ ہوا ہے۔ گوادر میں ہونے والے احتجاج اس امر کی ایک واضح مثال ہے۔
بلوچستان کے تنازعے کے دیرپا حل کے لیے پاک-ایران اور پاک-افغان بارڈرز پر باڑ لگانے، ملٹری آپریشن اور ایران پر دباؤ بڑھانے کے علاوہ پاکستانی ریاست کو ایک مربوط اور جامع سیاسی حکمت عملی بھی اپنانا ہوگی جو بلوچستان کے مسائل کا حقیقی معنوں میں ازالہ کرسکے۔ ورنہ ایک سیاسی مسئلے کا سکیورٹی حل نکالنے سے بلوچستان کا تنازع حل کی بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہو جائے گا۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
عبدالباسط سنگاپور کے ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں بطور محقق کام کرتے ہیں۔