وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ان کے صوبے میں حالیہ سکیورٹی کی بگڑتی صورت حال کے تناظر میں کہا ہے کہ صوبے میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم ضرورت پڑنے پر ایسا آپریشن ہو سکتا ہے۔
بدھ کو رات گئے اسلام آباد میں واقع بلوچستان ہاؤس میں بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ ایک نشست کے دوران سرفراز بگٹی نے یہ بات انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کے جواب میں کہی۔
انڈپیڈنٹ اردو کے اس سوال پر کہ ’آیا صوبے کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر بطور وزیراعلیٰ آپ سمجھتے ہیں کہ ملٹری آپریشن کی ضرورت ہے؟‘ سرفراز بگٹی نے کہا: ’ہمیں خطرے سے نمٹنا ہے۔ صوبے میں سمارٹ کائنیٹک آپریشن کی ضرورت ہے جبکہ انٹیلی جنس آپریشن پہلے ہی سے صوبے میں جاری ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک طرف وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے ’ضرورت‘ پڑنے پر بلوچستان میں ’بڑے فوجی آپریشن‘ کا عندیہ دیا ہے، وہیں جمعرات کو صوبے کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ’مربوط‘ حملوں میں ایک سکیورٹی اہلکار سمیت چھ افراد جان سے چلے گئے، جن میں زیادہ تر بس مسافر تھے جنہیں ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔
حالیہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے، جو ریاستی فورسز، غیر ملکی شہریوں اور غیر مقامی افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
11 مارچ کو بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر مسلح افراد نے بولان کے علاقے میں حملہ کر کے مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ ٹرین میں 400 سے زائد افراد سوار تھے جن میں سے بعض کا تعلق افواج پاکستان سے تھا۔ اس حملہ کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔
اس حملہ میں کم از کم 18 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 26 افراد جان سے چلے گئے تھے جبکہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق 33 عسکریت پسند مارے گئے تھے۔
پاکستانی فوج رواں ماہ صوبہ بلوچستان و خیبر پختونخوا میں ’شدت پسندوں‘ کے خلاف ایک نئے آپریشن ’بدر‘ کے تحت کاروائیوں کے آغاز سے متعلق اعلان کر چکی ہے۔
جعفر ایکسپریس حملے کے بعد صوبے میں ٹرین سروس کے دوبارہ آغاز سے متعلق وزیراعلیٰ بلوچستان نے بتایا کہ ’آج (جمعرات) سے نو ٹرینیں بحال کی جا رہی ہیں۔ اس سے قبل صوبے میں کم ٹرینیں چلا کرتی تھیں۔‘
انہوں نے صوبے بھر میں عید کی تعطیلات کے فوری بعد جامعات کھلنے سے متعلق بھی بتایا۔
جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد بلوچستان میں ٹرین سروس روک دی گئی تھی جبکہ صوبے بھر میں احتجاجوں کے دوران جامعات کو بھی غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
حالیہ دنوں میں بلوچستان اور کراچی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر انتظام اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کیے جا رہے ہیں، جس کے دوران اس کے مرکزی اراکین ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ سمیت دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ان گرفتاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ان خواتین کو گرفتار کرنا آخری آپشن تھا۔‘
سرفراز بگٹی نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مزید کہا: ’ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی ان دہشت گردوں کو سپورٹ کرتی ہے، یہ ان افراد کی پراکسی ہے۔ یہ دہشت گردی کو جائز قرار دینا (Legitimise) چاہتے ہیں۔‘
2020 میں قائم ہونے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حالیہ دنوں میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچستان میں کئی بڑے احتجاج اور اسلام آباد میں دھرنے دیے ہیں، جن کا الزام وہ سکیورٹی فورسز پر عائد کرتے ہیں، تاہم حکام ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ ’اگر حکومت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کالعدم بی ایل اے کا ساتھ دینے اور ان خواتین کے ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے متعلق دعویٰ کر رہی ہے تو اس کے ثبوت بھی پیش کیے جائیں، جو تاحال سامنے نہیں آئے ہیں؟ سرفراز بگٹی نے جواب دیا کہ ’ان ثبوتوں کو گوگل کیا جا سکتا ہے، وہ اوپن سورس پر دستیاب ہیں۔‘
دوسری جانب ایک درجن سے زائد اقوام متحدہ کے ماہرین نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ بلوچ انسانی حقوق کے کارکنان کو رہا کرے اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن کو روکے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ کو اپنے بیان میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے انسانی حقوق، اقلیتوں کے مسائل اور انسداد دہشت گردی اور دیگر ماہرین نے پاکستانی حکومت کی جانب سے ’پرامن احتجاج کے خلاف ابتدائی ردعمل کے طور پر ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال‘ کی مذمت کی۔
تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ کے بعض ماہرین کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کا نوٹس لیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بدھ کو اس حوالے سے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ اس نوعیت کے بیانات معروضیت کے اصولوں پر عمل پیرا ہوں، چیدہ چیدہ تنقید سے گریز کریں، حقائق کی درستگی کے ساتھ عکاسی کریں اور صورت حال کے مکمل تناظر کو تسلیم کریں۔