بہت کچھ ہو رہا ہے۔۔۔
اتوار کو رات پڑے اچانک عسکری ہائی کمان میں اہم تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
فیض آباد دھرنے کے اہم کردار جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی کے اہم ترین عہدے پر فائز کر دیے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ چار مزید تبادلے و تقرریاں بھی ہوتی ہیں لیکن جنرل فیض حمید کی تقرری پر سب کی نگاہیں ٹھٹھک جاتی ہیں۔
ملک میں کم و بیش گذشتہ دو سال کے نشیب و فراز میں جنرل فیض حمید کا جو کردار رہا ہے، اسے دُہرانے کی ضرورت نہیں۔ اسی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش منظر کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
عمران خان کی حکومت بیک وقت چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ اپوزیشن سے بھی بھڑ رہی ہے اور خود سے بھی نمٹ رہی ہے۔ تادمِ تحریر تو خان حکومت کو بجٹ کی منظوری کا امتحان درپیش ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے بجٹ منظور نہ ہو سکنے کی بھرپور کوششوں کے باوجود خان حکومت بجٹ پاس کروانے میں کامیاب ہو جائے گی، اپوزیشن ناکام رہے گی اور اس کا بڑا کریڈٹ ان در پردہ کوششوں کو ہی جائے گا۔
اگلا امتحان اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس کا درپیش ہو گا۔ فی الحال تو اپوزیشن میں سکت نظر نہیں آتی کہ اس موسم میں سڑکوں پر تحریک چلا سکے۔ سندھ سے باہر بندے نکالنے کی طاقت پیپلز پارٹی طویل عرصے سے کھو چکی ہے۔ ن لیگ کے رہنما اور کارکن ووٹ کی عزت کے جارحانہ بیانیےاور خدمت کی سیاست کے خاموش مفاہمانہ رویے کے درمیان بٹے ہوئے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان سڑکوں پر ہنگامے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں اور سکت بھی لیکن بلاول بھٹو زرداری تو کہہ چکے کہ پیپلز پارٹی حکومت گرانا نہیں چاہتی۔
شہباز شریف بھی اسی سوچ کے حامی نظر آتے ہیں۔ مریم نواز نہ صرف نواز شریف کے بیانیے اور سیاسی طاقت کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں بلکہ خاندان اور جماعت میں اپنا مرکزی کردار بھی قائم رکھنا چاہتی ہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ وہ نائب صدر ہیں اور شہباز شریف صدر۔ اگرچہ شہباز شریف اور مریم نواز دونوں ہی ضمانت پر ہیں لیکن بہرکیف شہباز شریف مقتدر قوتوں کو تاحال نواز شریف اور مریم نواز کی نسبت قابل قبول سمجھے جا سکتے ہیں اور خود شہباز شریف بھی اس تاثر کو تاحال زائل کرنے پر دل سے آمادہ نظر نہیں آتے۔
یہی وجہ ہے کہ اچانک لندن سے وطن واپسی بھی ہو جاتی ہے اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کے باوجود ان کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری ہو جاتے ہیں۔ یہ سہولت تاحال آصف زرداری کو میسر نہیں اور ذرائع کے مطابق طویل عرصے تک میسر نہ ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب فریال تالپور کے ساتھ نیب کا نرم رویہ اور پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونا نہ صرف زرداری بلکہ بلاول بھٹو کے لیے بھی پیغام ہے جبکہ اپوزیشن کی چھوٹی جماعتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر آنکھیں بند کرکے اعتماد بھی نہیں کر سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اے این پی نے پتہ پھینکا کہ اگر دونوں بڑی جماعتیں سنجیدہ ہیں تو چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی عمل میں لائی جائے جو ظاہر ہے فی الحال نہ تو ممکن ہے اور نہ مطلوب۔
اس تمام سیاسی تناظر میں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوتی بھی ہے تو نشستند، گفتند و برخاستند سے بڑھ کر نہیں ہو گی۔ اپوزیشن کا بڑا دارومدار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کی 14 جون کی سماعت اور وکلا کے ملک گیر احتجاج پر تھا۔ سماعت کے بعد ذرائع کے مطابق ایک اہم خبر کا اعلان متوقع تھا جسے بعد میں چند اہم وجوہات کی بنا پر روک دیا گیا۔ اس ریفرنس کا اب مستقبل کیا ہے، اگلی سماعت کب ہے، فی الحال کسی کو معلوم نہیں۔ جنرل فیض کا البتہ اہم ترین عہدے پر فائز ہونا ایک اہم نشانی ہے۔
جون، جولائی اور اگست گرم ترین مہینے ہونے کے ساتھ ساتھ معاملات کی گرما گرمی اور سیاسی جوار بھاٹے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ پاکستان میں رواں قمری سال کا اہم اختتام نومبر میں ہے اور اس سے قبل بہت کچھ ہونا باقی ہے، بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
کچھ عرصے میں ایک اور اہم خبر بھی متوقع ہے۔
بہت کچھ ہو رہا ہے درونِ پردہ ۔ ۔ ۔