حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن میں حال ہی میں تنظیم نو کی گئی ہے۔ پارٹی قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو نائب صدر کا عہدہ دیا گیا ہے اور قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ پارٹی کے معاملات مریم نواز کے حوالے کردیے گئے ہیں۔
دوسری جانب سوالات اٹھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن اندرونی خلفشار کا شکار ہے اور واضح نہیں کہ یہ جماعت آئندہ مزاحمتی سیاست کرے گی یا مصالحتی راستہ اپنائے گی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ان ہی سوالات کے جوابات جاننے کے لیے مسلم لیگ ن کے نائب صدر اور سابق وفاقی وزیرِ دفاع خرم دستگیر سے انٹرویو کیا، جس کا متن یہ ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو: مسلم لیگ ن کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہے؟ نواز شریف یا شہباز شریف؟
خرم دستگیر: نہیں، مسلم لیگ ن کے ایک ہی قائد ہیں محمد نواز شریف۔ ہم سب بشمول شہباز شریف اُسی قائد کی طرف رہنمائی کے لیے دیکھتے ہیں۔ اس میں کبھی بھی کوئی ابہام نہیں رہا۔ شہباز شریف بجٹ سیشن سے پہلے انشا اللہ وطن واپس آئیں گے اور متحدہ اپوزیشن اور مسلم لیگ ن کی بھی قیادت کریں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو: نواز شریف کی سیاسی جانشین سمجھی جانے والی مریم نواز کا پارٹی میں کیا کردار ہو گا؟
خرم دستگیر: مریم نواز کو جماعت میں ایک باضابطہ کردار دے دیا گیا ہے۔ پارٹی اپنے آپ کو چاروں صوبوں میں منظم کرنے جا رہی ہے۔ اس میں وہ حصہ لیں گی۔ پارٹی کی سمت کے بارے میں بھی بطور نائب صدر اپنی رائے دیں گی۔
انڈپینڈنٹ اردو: کیا مریم پارٹی چلا پائیں گی؟
خرم دستگیر: نہیں ابھی تو ان کے (پارٹی) چلانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ نواز شریف اور شہباز شریف پارٹی چلا رہے ہیں۔ سینیئر وائس صدر شاہد خاقان عباسی اور کچھ سینیئر لوگ ہیں جو پارٹی کو چلا رہے ہیں۔ وہ بھی بحیثیت نائب صدر اپنی رائے دیں گی۔ ابھی ان کی پارٹی کو چلانے والی صورت حال نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو: حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف تو کہتی ہے کہ مریم نواز سزا یافتہ ہیں لہٰذا کوئی پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتیں؟
خرم دستگیر: یہ حکومتی پارٹی کی سراسیمگی ظاہر کرتی ہے جو مضحکہ خیز ہے۔ مریم نواز کبھی بھی پبلک آفس ہولڈر نہیں رہی ہیں لہٰذا ان کے نااہل ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ان کوایک سزا ضرور ہوئی ہے جو معطل ہے، لیکن اس سے قبل اُن پر نااہلیت کا جو اطلاق ہے اس پر سپریم کورٹ نے اپنی ایک آبزرویشن دی ہے اس کا ان پر اطلاق نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو: آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن کی سیاست کیا ہو گی؟ مزاحمتی یا مصالحتی؟
خرم دستگیر: مسلم لیگ ن کی سیاست مزاحمت کی جانب جا رہی ہے۔ مزاحمت سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جو پاکستان کے عوام کا حق حاکمیت ہے، جو وعدہ آئینِ پاکستان میں لکھا ہوا ہے اس کو ہمیں یقینی بنانا ہے۔ اس کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ گذشتہ برس ایک نئی حکومت بنی تھی جس پر ہمیں تحفظات ہیں کہ مینڈیٹ چوری ہوا۔ بہرحال قوم نے آگے جانا ہے اور عوام کے اس حق کو یقینی بنانا ہے۔ان کی مرضی سے حکومتیں بننی چاہییں، فیصلے ہونے چاہییں۔ یہی ہمارا اہم ہدف ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو: جس مزاحمت کی آپ بات کر رہے ہیں وہ لیگی رہنماؤں کو جیلوں سے نکالنے کے لیے ہو گی یا عوامی مسائل کے حل کے لیے؟
خرم دستگیر: پارٹی رہنماؤں کی مشکلات بھی اسی بیانیے کو اختیار کرنے کی وجہ سے ہیں۔ اس کے لیے بھی جدوجہد ہو گی ۔۔۔۔ آپ کو مسلم لیگ ن متحرک نظر آئے گی۔