اللہ اللہ، اب کے سال کیسی بہار آئی ہے، شیخ رشید اور فواد چوہدری بھی حزب اختلاف کے ساتھ بقائے باہمی کی غزل کہہ کر آبلوں پر حنا باندھ رہے ہیں۔
بعد از خرابی بسیار ہی سہی، چلیں ہمارے شعلہ بیاں وزرائے کرام کو یاد تو آیا کہ سیاست میں اتنی تلخی مناسب نہیں ہوتی کہ آپس میں گفتگو ہی مشکل ہو جائے۔
سوال مگر یہ ہے کیا یہی مشورہ یہ وزرائے کرام جناب عمران خان کو بھی دے سکتے ہیں جن کے اسلوب گفتگو سے یہ تاثر پختہ تر ہوتا جا رہا ہے کہ ہیجان، نفرت اور تلخی کو انہوں نے شعوری طور پر ایک ’بہترین حکمت عملی‘ کے طور پر چن رکھا ہے اور وہ اس باب میں اتنے یکسو ہیں کہ وہ جنرل باجوہ کے مشورے کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں؟
وزیر اعظم کو ایسا مشورہ دینا خطرے سے خالی نہ ہو تو کسی اچھے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ذرا خود کلامی ہی کر لیں کہ ان کے تین سالہ اقتدار میں خود ان کے اپنے کتنے بیانات ایسے ہیں جن پر تحمل، مفاہمت اور اعتدال کی تہمت دھری جا سکے۔
پاپولزم کی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ وہ شعور اور دلیل کو نہیں بلکہ نفرت اور جنون کو اپنا مخاطب بناتی ہے۔ یہی المیہ پاکستانی سیاست پر بیت چکا اور ایک پوری نسل اس کا شکار ہو گئی۔
عدم اعتماد اب مسئلہ نہیں، یہ کامیاب ہو یا ناکام، اصل مسئلہ اس نوجوان نسل کی ’ڈی بریفنگ‘ ہے جسے دلیل اور کارکردگی کی بجائے رومان نفرت اور جنون کی طرف دھکیل دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کا کل زاد راہ چند اقوال زریں اور ڈھائی درجن گالیاں ہیں۔ ان کے خیال میں معلوم انسانی تاریخ کا آغاز بانوے کے ورلڈ کپ سے ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی ایسی خوبی نہیں جو ان کے رہنما میں موجود نہ ہو۔
پاپولزم کی سیاست میں ہیرو کو مارکیٹ کیا جاتا ہے۔ مٹی کا ایک پتلا تراشا جاتا ہے اور پھر اسے سپر ہیرو قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسے برانڈ بنایا جاتا ہے۔ چنانچہ دنیا کو یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ چی گویرا سے لینن تک ان کرداروں کا کوئی اور روپ بھی تھا اور ان کے فکرو عمل نے انسانیت کو کتنے گھاؤ دیے۔ وہ جنون میں صرف اس برانڈ پر مر مٹتے ہیں۔
دلیل اور حقائق سے بے نیاز ہو کر ہیرو ورشپ کے لیے پوسٹ ٹروتھ تراشا جاتا ہے۔ انقلابی گروہوں کی طرح اپنے وابستگان کو نفرت اور ہیجان سے بھر دیا جاتا ہے تا کہ وہ اسی جنون کے زیر اثر رہیں اور معاملات کا معروضیت اور معقولیت سے تجزیہ نہ کر سکیں۔
اس کیفیت کو مستقل رکھنے کے لیے نفرت اور جنون کے بیانیے کو بھی مستقل طور پر دہرایا جاتا رہتا ہے۔
یہ مشاہدے کی بات ہے کہ ہمارے آس پاس، ہمارے دوستوں عزیزوں رشتے داروں میں بظاہر اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں لیکن جب سیاست اور عصر حاضر کی بات ہو تو ان کی نفرت اور جنون ان کی فکری صلاحیتوں پر غالب آ جاتی ہے۔
وہ ایک کم عمر عاشق کی طرح اپنے محبوب قائد کی محبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک دنیا کے سات براعظموں کی معلوم انسانی تاریخ کی کہانی بس اتنی سے ہوتی ہے کہ ان کا رہنما پارسا باقی ساری دنیا کرپٹ۔
ان کی معلومات چند اقوال زریں تک محدود ہوتی ہیں اور یہی قیادت کا مطلوب و مقصود ہوتا ہے۔
وہ ان کارکنان کو نفرت اور جنون کے ایسے دائروں میں ہانکتی ہے اور اس کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ نفرت بڑھتی رہے اور پولرائزیشن پھیلتی رہے۔ تاکہ لوگ کارکردگی اور دلیل کی بجائے اس نفرت کی بنیاد پر ہونے والی صف بندی کی وجہ سے قیادت سے وابستہ رہیں۔
یہ افتاد طبع نہیں نہ مزاج کی شدت ہے۔ یہ ایک طے شدہ حکمت عملی ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ لیجیے ساڑھے تین سالہ اقتدار کے بعد بھی وزیر اعظم اپنی کارکردگی پر بات کرنے کی بجائے حزب اختلاف کو لعن طعن کر رہے ہیں۔ گویا وہ اپنے نامہ اعمال کی بنیاد پر نہیں بلکہ حزب اختلاف سے نفرت کی بنیاد پر سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔
لبوں پر انگارے لیے پھرنے والے وزرائے کرام وقت کا موسم بدلا دیکھ کر مفاہمت اور معقولیت کی بات کرنے لگے تو مجھے بھٹنڈہ کے سردار ارجن یاد آ گئے۔ انہوں نے کہا تھا جب وقت بدلتا ہے تو لٹھ ماروں کے گنڈاسے بھی ’پنچایت کے حقوں کی نے‘ بن جاتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔