پاکستان کا سیاسی ماحول ایک شدید تغیانی کا شکار ہے اور ایسا وقت ہے جس میں سازشی اور افسانوی گفتگو پنپ رہی ہے۔
ویسے تو یہاں روزانہ کی بنیاد پر نئی سیاسی کہانیاں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے درپے ہے۔ اب ایک طرف تو ماحول الیکشن کا سا لگ رہا ہے اور دوسری طرف ایک دنگا فساد کا ماحول۔
یہ ممکنہ طور پر فوری تناظر میں اور شاید درمیانی مدت میں بھی یقینی طور پر سیاسی اور ریاست کی سطح پر ہلچل پیدا کر رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کیوں کہ بالآخر یہ اس پر منحصر ہوگا کہ اپوزیشن وزیر اعظم کے خلاف اپنے عدم اعتماد کے ووٹ کی حمایت میں کتنے ووٹ لے سکتی ہے۔
لہذا اس رائے شماری کا نتیجہ اگلے ایک ہفتے کے اندر واضح ہو جائے گا جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کا ووٹ پیش کیا جائے گا اور ووٹ لیا جائے گا۔ اس سے متعلق کچھ اہم پیش رفت ہے جو جلد ہی منظر عام پر آئے گی۔
پاکستانی سیاست میں کہانیاں سنانے کی روایت سے اہم افسانہ سازی ہے۔ تو ہم کیا بیرونی ایجنسیوں کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کو مبینہ طور پر ہٹانے کی کہانی دیکھ رہے ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کی ٹیم اور حامی کچھ حقائق کو استعمال کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم کو ہٹانے کی مہم ایک غیر ملکی سازش کا نتیجہ ہے۔
یہ بات درست ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی نے بین الاقومی سطح پر اہمیت اختیار کی ہے اور وزیر اعظم نے پاکستان کی ماضی کی کچھ روایتیں برقرار رکھتے ہوئے چند صحیح اور سخت فیصلے کیے۔ اور اس کے برعکس کچھ اور بھی خارجی اور سکیورٹی پالیسی سے جڑے معملات ہیں جن سے مل کر ایک ایسی داستان گوئی کی جا سکتی ہے جو ایک سازش نما حالات کی عکاسی کر سکتا ہے۔
اگر پانچ ہی مختلف نوعیت کے حقائق لیں تو دیکھیں کہ داستان گوئی خوب ہوتی ہے:
ایک یہ کہ کشمیر، بھارت، فلسطین، یوکرین اور روس پر اپنی خارجہ پالیسی کی وجہ سے عمران خان کچھ مغربی دارالحکومتوں میں مقبول نہیں ہیں۔ عمران خان کی خارجہ پالیسی کے دو موقف اصولی طور پر درست ہیں۔
وہ پاکستان کے مشکل فیصلے کرنے کی، وہ بھی ایسے اوقات میں جو پاکستان کے لیے بھی مشکل تھے، ماضی کی مثبت روایت کو آگے بڑھاتے ہیں۔ مثال کے طور ماضی میں یمن، شام، بوسنیا اور فلسطین پر بھی مشکل اوقات پر نہایت مشکل فیصلے کیے گیے۔
آخر ہوا کس طرف چلے گی یہ ہر کسی کا اندازہ ہے لیکن اس ووٹ کے ساتھ غیر ملکی سازشوں کو جوڑنا بالکل بےبنیاد ہے۔
تیسری حقیقت وزیر اعظم کا چھ مارچ کو یورپی یونین کے سفیروں کے ایک خط کے جواب میں کہ پاکستان یوکرین کے معاملے پر روس کی مذمت کرے، اپنے جلسے میں یہ کہنا کہ کیا پاکستان ان کا غلام ہے اور کیا انہوں نے بھارت کو بھی خط لکھ کر بھارت کی کشمیر پالسی پر کچھ کہا؟
یہ بیان کوئی پالیسی ڈیزاسٹر نہیں تھا کہ اس سے پاکستان کی یورپی اتحاد سے متعلق پالیسی کو نقصان پہنچے گا یا دوطرفہ تجارت پر منفی اثر پڑے گا۔ بس سفارتی طور پر شاید یہ ایک بہتر بیان نہ تھا۔
چوتھی حقیقت کہ یورپی یونین کے پریس بیان کے بارے میں وزیر اعظم کے بیان کے خلاف شور وغلُ انتہا کی پچ پر تھا۔ واضح طور پر ہماری سیاست کے اندر بہت سے لوگوں کا ردعمل سفارت کاری یا خارجہ پالیسی کی حقیقت کے بارے میں نہیں تھا اور نہ کوئی سنگین صورت حال پر تھا بلکہ یہ ملکی سیاست کی موجودہ حالت کے بارے میں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پانچویں حقیقت یہ کہ وہ غیر ملکی سفارت کار جو آرمی چیف سے باقاعدگی سے ملتے ہیں وہ عام طور پر ان سے مرعوب ہو کر عموماً سوچتے ہیں کہ وہ عالمی سیاست کو سمجھتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کس بات کی ضرورت ہے۔ خارجہ پالیسی کے بارے میں نہ صرف روس اور یوکرین کے معاملے میں بلکہ دیگر معاملات پر بھی وزیر اعظم کے خیالات ایسے نہیں ہیں کہ بہت سے سفارت کار اس سے مطمئین ہوں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پانچ حقائق کو گڈمڈ کر کے بات یہ بنائی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش میں یہ کچھ ممالک عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے سے حکومت کا تختہ الٹنے میں شریک ہیں۔
یہ حقیقت سے بہت دور ہے لیکن حقیقت یہ نہیں ہے! ووٹ کا کسی بین الاقوامی سازش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس ووٹ کے ساتھ غیر ملکی سازشوں کو جوڑنا بےبنیاد ہے لیکن عوام میں سیاسی نمبر حاصل کرنا اصل مقصد ہے۔
عدم اعتماد کا ووٹ اپوزیشن نے پیش کیا کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ اندرونی حالات کی وجہ سے عمران خان کو ہٹانے کا موقع موجود ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے وقت کی سب سے بڑی وجہ اندرونی طاقتوں کا کھیل بھی ہے- وہاں بھی عدم اعتماد ہے - اور آخر ہوا کس طرف چلے گی ووٹ پر اثر انداز ہوگی۔
پاکستان کے لیے اس ووٹ کا کیا فائدہ تو ایک اور معاملہ ہے- فی الحال پاکستان میں یہ ایک سیاست اور طاقت کی جنگ کا ایک اور باب ہے - ایک اور تماشہ ہے- اس مرتبہ شراکت کار اور ہیں، پچھلی مرتبہ عمران خان بھی تھے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا صروری نہیں ہے۔