پاکستان کے مسلسل سیاسی بحرانوں کے حل کے لیے قومی حکومت کی تجویز دینے والے میاں شہباز شریف آج پاکستان کے نئے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔
ان کی اتحادیوں کی دین حکومت، ماسوائے چند چھوٹی سیاسی جماعتوں جیسے کہ مسلم لیگ ق اور جماعت اسلامی، کسی حد تک قومی حکومت ہی کہلائی جا سکتی ہے۔ ان کی قومی حکومت کی تجویز ویسے بھی مائنس تحریک انصاف پر مبنی تھی۔
71 سالہ شہباز شریف نے بعد میں قومی حکومت کی تشکیل کی تجویز کو اپنی ذاتی رائے کہا تھا جبکہ ق لیگ کے ساتھ ممکنہ اتحاد اور چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش کے سوال پر ان کا جواب تھا کہ ’سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ کل کے دوست آج کے مخالف اور کل کے مخالف آج کے دوست۔‘ یعنی پنجاب میں بھی آگے چل کر وہ کسی مفاہمت تک پہنچ سکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے پاس چوتھی مرتبہ وزارت عظمی آئی ہے لیکن اس مرتبہ میاں نواز شریف کے مقابلے میں ایک قدرے مختلف سیاست دان کو مسند ملی ہے۔ وہ مفاہمتی سیاست کا پرچار کرتا ہے اور ایک اچھے منتظم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانات ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، جو انہیں اس وقت انتہائی منقسم اور پولرائزڈ ملک کے لیے اچھے متبادل کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔
لیکن بعض سیاسی مبصرین حمزہ شہباز شریف کے وزیراعلیٰ پنجاب بنائے جانے کے تناظر میں اس جماعت کی اس پالیسی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے کہ مرکز میں والد اور پنجاب میں بیٹا اقتدار میں ہو۔ مسلم لیگ ن میں تجربہ کار اور منجھے ہوئے رہنماؤں کی کمی نہیں۔ پنجاب کم از کم کسی اور کے حوالے بھی کیا جاسکتا تھا۔ باپ بیٹے کا امتزاج نئی اپوزیشن یعنی تحریک انصاف کو بھی مخالف مہم چلانے میں بڑی مدد دے گا۔
انقلابی شاعری کے شوقین چھوٹے شریف بڑے میاں نواز شریف کی ہدایات پر چلتے ہیں۔ ان کے لیے اس سے انحراف ممکن نہیں۔ لندن میں بیٹھ کر نواز شریف ان کے فیصلوں پر کتنے اثر انداز ہوں گے یہ بھی دیکھنا ابھی باقی ہے۔
لندن سے جو حکم نامہ پہلے آیا تھا کہ ’لڑو اور لڑ مرو‘ یعنی کہ ووٹ کو ہر صورت عزت دلواؤ۔ اس وقت حکم تھا کہ اس کے راستے میں جو بھی آئے چاہے جنرل ہو، چاہے کرنل ہو، چاہے وزیر اعظم ہو، چاہے جج ہو آپ بس آگے بڑھتے رہیں اور ثابت قدم رہیں۔ مڑ کر دیکھنے کی بات نہیں تھی۔ اس وقت ان کی یہ بات مانی گئی۔
پھر جب تحریک عدم اعتماد کی ہوا چلی اور عمران خان کے اتحادیوں کی ناراضگی کے بعد یہ ممکن ہوا تو نواز شریف اور مریم نواز نے قیادت میں قدرے ثانوی پوزیشن اختیار کرلی۔ نہ اب اسٹیبلشمنٹ دشمن اور نہ انتقام کے مطالبے سنائی دے رہے ہیں۔
اگر نواز شریف ایسے موقع پر واپسی کا فیصلہ کرتے ہیں تو اسے بھی شہباز حکومت کے لیے اچھا فیصلہ نہیں مانا جائے گا۔ وہ پہلے ہی سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں کہ انہوں نے واپسی کے لیے کمر کس لی ہے۔ تاہم عام اتخابات سے قبل ان کی آمد اب یقینی ہوگی۔ ان کی موجودگی سے مسلم لیگ ن کی پوزیشن انتخابات میں مستحکم ہوگی۔
نواز شریف نے جو انتہا پسند سیاست چلائی وہ ناممکنات کے فن کو لے کر آگے چلے گی۔ اس وقت ’سب سے لڑ پڑو‘ والی سیاست سے مسلم لیگ ن کو ڈسکہ میں بھی جیت حاصل ہوئی اور یقیناً پنجاب میں بھی اس کی حمایت برقرار رہی۔ اب چونکہ اقتدار میں ہیں تو شہباز شریف مسلم لیگ ن کو نئے رنگ میں سامنے لائیں گے۔
کرتا دھرتا طاقتوں کا بھی شہباز شریف کے ساتھ رابطہ رہا ہے، لہذا اس مرتبہ انہیں سیاست کے لیے کچھ جگہ دی جائے گی۔ فوری طور پر ان کو کسی کیس میں بند نہیں کیا جائے گا اور پارٹی بھی شاید اب پارلیمان میں ہر حال میں جھگڑے کی پالیسی کو ترک کرکے زیادہ متحرک ہونی چاہیے۔
شہباز شریف کے لیے ایک بڑا چیلنج پیپلز پارٹی سمیت دیگر اتحادیوں کو خوش اور مطمئن رکھنا بھی ہوگا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سب کو معلوم ہے کہ ایک دوسرے کے لیے اچھے خیالات نہیں رکھتے ہیں۔ پھر کابینہ میں نشستوں اور دیگر معاملات پر اختلافات کے قوی امکانات ہیں۔
سیاسی پیچیدگیوں کے علاوہ شبہاز شریف کو انتظامی مسائل جیسے چیلنجوں کا بھی سامنا ہوگا۔
انتظامی صلاحیت
شہباز شریف کے پاس وہ کرشمہ نہیں جو ان کے بھائی نواز شریف یا ان کی بھتیجی مریم کے پاس ہے۔ اس کی بجائے ان کی طاقت ان کی ایک قابل منتظم کے طور پر ہے۔
ایک کاروباری خاندان میں پیدا ہونے والے شہباز شریف نے بھی اپنے خاندانی کاروبار کی بجائے سیاست کو اپنایا۔ ایک صنعت کار کا بیٹا جس نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور خاندانی ملکیت والے اتفاق گروپ میں شامل ہو گئے جو سٹیل کا کاروبار کرتا تھا۔
1990 میں جب نواز شریف نے وزیر اعظم کے طور پر اپنا پہلا انتخاب جیتا تو شہباز شریف قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ 1997 میں اپنے بھائی کے وزیراعظم کے طور پر دوسرے دور میں وہ پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے اور طاقتور صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔
تاہم دو سال بعد جب نواز شریف نے فوج کے سربراہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تو دونوں بھائیوں کو فوجی بغاوت میں معزول کر دیا گیا۔ اس خاندان کو قید کیا گیا اور پھر 2007 تک سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا۔
ملک واپس آنے کے بعد بالآخر دونوں اپنے سابق عہدوں پر واپس آ گئے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے شہباز کی انتظامیہ نے بنیادی ڈھانچے پر بھاری خرچ کیا اور جب 2017 میں نواز کو ایک بار پھر عہدے سے ہٹایا گیا تو اس بار بدعنوانی کے الزامات کے بعد وہ ان کی جگہ لینے والے واضح امیدوار تھے- اس کے بعد سے وہ قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) پارٹی کے صدر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ان کے عملی اقدامات کی وجہ سے وہ چین کے حکمران حلقوں میں بھی مقبول ہوئے۔ انہوں نے لاہور میں چین کی مدد سے کئی منصوبے مکمل کیے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنی تین مدتوں کے دوران شہباز نے اپنے آبائی شہر لاہور میں پاکستان کے پہلے جدید ماس ٹرانسپورٹ نظام سمیت متعدد اہم بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی کی اور انہیں عملی جامہ پہنایا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سبکدوش ہونے والے چینی قونصل جنرل نے گذشتہ سال انہیں خط لکھ کر چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بڑے اقدام کے تحت منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے ان کی ’پنجاب سپیڈ‘ کی تعریف کی تھی۔ سفارت کار نے یہ بھی کہا کہ وہ اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن کی حکومت یا حزب اختلاف میں چین کے دوست ہوں گے۔
کرپشن کے الزامات
بڑے بھائی کی طرح ان پر بھی کرپشن کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مقدمات ان کے خلاف سیاسی انتقام ہے۔
2020 میں شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ پر جو پنجاب میں قائد حزب اختلاف ہیں، منی لانڈرنگ کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی اور برطانیہ نے خاندان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی تحقیقات میں شہباز کے خلاف شواہد نہ ملنے کے بعد یہ مقدمہ ختم کر دیا گیا۔ تاہم یہ پاکستان میں اب بھی کھلا ہے جہاں دونوں پر فرد جرم عائد کرنے کا عمل بار بار موخر کیا گیا ہے۔
ان کے اور ان کے بیٹے کے خلاف لاہور کی سپیشل سینٹرل کورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے کہنے پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ بھی آج کل چل رہا ہے۔ اس مقدمے کے چالان میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو نہ صرف مرکزی ملزمان بلکہ 16 ارب روپے سے زیادہ کی منی لانڈرنگ کا اصل فائدہ اٹھانے والوں کے طور پر ملزمان ٹھہرایا ہے۔ 16 ارب روپے سے زائد کی مبینہ منی لانڈرنگ، بدعنوانی، غیرقانونی ذرائع اور تحائف سے حاصل شدہ رقوم پر مشتمل ہے۔
شہباز شریف نے اس مقدمے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ نیب نے بھی اس سے قبل اسی قسم کا مقدمہ بنایا لیکن تحقیقات سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوا اور اب سیاسی انتقام کے طور پر ایف آئی اے کے ذریعے اسے چلایا جا رہا ہے۔ البتہ انہوں نے بعد میں یہ درخواست واپس لے لی تھی۔
انہیں ستمبر 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن تقریباً چھ ماہ بعد حراست میں رہنے کے بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
چیلنج
وزیر اعظم بننے کے بعد ایک قابل منتظم کے طور پر شہباز شریف کی ساکھ کا صحیح معنوں میں امتحان شروع ہوگا۔ پاکستان کی معیشت انتہائی خراب حالت میں ہے - افراط زر 13 فیصد ہے اور روپے کی کم ہوتی ساکھ کے ساتھ ہی ادائیگیوں کے توازن کا بحران ان کا منتظر ہے۔
خارجہ امور میں زیادہ اہم مسئلہ پاکستان کے قریبی ہمسایوں کا ہے۔ شریف خاندان کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں اور یہاں تک کہ ملک کے موجودہ چیف آف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے مصالحت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے 2 اپریل کو کہا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ بات چیت چاہتے ہیں اور کشمیر پر ’آگے بڑھنے‘ کے لیے تیار ہیں۔ باجوا نے کہا تھا کہ پاکستان تنازعہ کشمیر سمیت تمام بقایا مسائل کے حل کے لیے بات چیت اور سفارت کاری کے استعمال پر یقین رکھتا ہے اور اگر بھارت ایسا کرنے پر رضامند ہوتا ہے تو وہ اس محاذ پر آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے۔
شہباز کو ’آہنی بھائی‘ چین سے بھی نمٹنا ہوگا۔ شریفوں نے دنیا بھر میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت چین پاکستان اقتصادی راہداری کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم یہ منصوبہ عمران خان کے دور میں سست روی کا شکار ہو گیا تھا۔
شہباز شریف نے گذشتہ دنوں ایک انٹرویو میں عمران خان کے برعکس کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ لیکن ان کا ’بھکاری‘ سے متعلق بیان پہلے ہی تحریک انصاف ان پر تنقید کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
افغانستان جہاں گذشتہ سال طالبان اقتدار میں آئے، شہباز شریف کے خارجہ تعلقات کا سب سے مشکل حصہ ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا جس پر سب کو تشویش ہے۔
شہباز شریف متعدد شادیوں اور وسیع جائیداد کی وجہ سے بھی سرخیوں میں رہنے کے باوجود پنجاب میں مقبول ہیں۔
مصنفہ تہمینہ درانی سے ان کی موجودہ شادی نے بڑی حد تک افواہیں ختم کردی تھیں۔
تہمینہ درانی، حقوق نسواں کی حامی ہیں جن کی کتاب ’مائی فیوڈل لارڈ‘ نے انہیں بین الاقوامی سطح پر متعارف کروایا۔